بے معنی آنی جانیوں کی ضرورت نہیں۔ آنا ہے تو استعفیٰ ساتھ لے کر آئیں۔‘ فوٹو: ٹویٹر
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ’مذاکرات اور بے معنی آنے جانے کی ضرورت نہیں۔ آنا ہے تو استعفیٰ ساتھ لے کر آئیں۔‘
دوسری طرف حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں پر مشتمل رہبر کمیٹی نے کہا ہے کہ دو روز کے بعد ’آزادی مارچ‘ اور رخ اختیار کرے گا۔
جمعرات کو اسلام آباد میں ’آزادی مارچ‘ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ ’ہم یہ تحریک بڑی استقامت سے یہاں تک لے آئے ہیں اور ہم استعفے سے کم پر راضی نہیں ہوں گے۔ ہم قومی اداروں سے برادارانہ لہجے میں کہنا چاہتے ہیں کہ ان (مارچ کے شرکا) کے مطالبات کو تسلیم کریں۔ ان کو ان کا حق دیا جائے اور نااہل حکومت کو فارغ کیا جائے۔‘
مولانا کا کہنا تھا کہ وہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں جس میں انہوں نے کہا کہ فوج غیر جانبدار رہے گی۔ ’میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ استقامت دے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا جب پی اے ایف نے انڈیا کا جہاز گرایا تو جے یو آئی کے کارکن سڑکوں پر نکل آئے اور افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا۔ آج یہی کارکن سڑکوں پر ہے۔
مولانا کے مطابق ’گلے شکوے اپنوں سے کیے جاتے ہیں۔ آپ نے کہا ہم غیر جانبدار ہے، ہم نے مان لیا لیکن ووٹ ایک امانت ہے اور اس امانت کو واپس کیا جائے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’کہا جاتا ہے کہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے قومی کمیشن بنایا جائے لیکن میں کہتا ہوں کہ تحقیق اس چوری کی جاتی ہے جس کا پتہ نہ ہوں یہاں تو الیکشن کی چوری پر قوم گواہ ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا جے یو آئی (ف) نے نوجوانوں کو اعتدال کا راستہ دکھایا اور شدت پسندی سے دور رکھا۔ جے یو آئی کے کارکنوں نے شدت پسندی کے خلاف افواج کا شانہ بشانہ ساتھ دیا۔ ’یہ وفادار ہیں، ان کو حقارت سے نہ دیکھا جائے۔‘
مولانا کے مطابق دھاندلی کے حوالے سے ابھی تک عدالتوں سے انفرادی کیسز میں جتنے فیصلے آئے ہیں ان میں آپ کو شرمندگی ہوئی ہے۔‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ تحریک انصاف کے پارٹی فنڈنگ کا کیس الیکشن کمیشن میں کیوں لٹک رہا ہے، اس کیس کا فیصلہ کیوں نہیں کیا جاتا؟
ان کے بقول تحریک انصاف نے فارن فنڈنگ کا کیس رکوانے کے لیے عدالتوں میں 60 درخواستیں دیں جو کہ تمام مسترد ہوئی۔ ’میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس کے باوجود الیکشن کمیشن اس کیس کا فیصلہ ابھی تک کیوں نہیں کر پایا ہے۔‘
’آزادی مارچ دو روز میں نیا رخ اختیار کرے گا‘
قبل ازین حکومت مخالف تحریک کے تناظر میں بننے والی اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے کہا کہ دو روز بعد آزادی مارچ نیا رخ اختیار کرے گا۔
بدھ کو اسلام آباد میں رہبر کمیٹی کی میٹنگ کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کے کمیٹی کے کنوینر اکرام درانی کا کہنا تھا دھرنا جاری ہے اور دھرنا دینے والے کارکنوں کے لیے ٹینٹ اور کھانے پینے کا بندوست کر رہے ہیں۔
پریس کانفرنس کے موقعے پر رہبر کمیٹی کے دیگر ارکان بھی اکرم درانی کے ساتھ موجود تھے۔
اکرم درانی کا کہنا تھا کہ نوشہرہ سے مزید قافلے دھرنے میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں اور ان کے لیے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے پرویز الہیٰ سے ملاقات میں ان پر واضح کیا ہے کہ ان کی کسی بھی تجویز پر حتمی فیصلہ رہبر کمیٹی ہی کرے گی۔
حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات کے حوالے سے اکرام درانی کا کہنا تھا کہ حکومتی کمیٹی کی جانب سے رہبر کمیٹی کے مطالبات کے حوالے سے تاحال کوئی موافق تجویز سامنے نہیں آئی ہے۔
اکرم درانی نے مزید کہا کہ رہبر کمیٹی کے اجلاس میں تمام اپوزیشن جماعتوں نے دھرنے میں شریک جے یو آئی (ف) کے کارکنان کے جذبے کو سراہا ہے۔
ان کے بقول ’ہم ایک ہی استعفیٰ چاہتے ہیں اور اسی سے تمام مسائل حل ہوں گے۔‘
اکرم درانی کی زیر صدارت ہونے والے رہبر کمیٹی کے اجلاس میں نیر بخاری، فرحت اللہ بابر، ایاز صادق، امیر مقام، اویس نورانی، شفیق پسروری، ہاشم بابر، سینیٹر طاہر بزنجو اور سینیٹر عثمان کاکڑ شریک ہوئے۔
خیال رہے کہ جمیعت علمائے اسلام (ف) کا ’آزادی مارچ‘ 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوا تھا اور مارچ کے شرکا اسلام آباد کے سیکٹر ایچ 9 کے گراؤنڈ پر دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
مارچ کے اسلام آباد پہنچے کے بعد مولانا فضل الرحمان نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وزیراعظم دو دن میں استعفیٰ دیں ورنہ ہم نے آگے کے فیصلے کرنے ہیں۔‘ ان کی طرف سے وزیراعظم کو استعفے کے لیے دی گئی مہلت اتوار کو ختم ہوگئی تھی۔
بدھ 6 اکتوبر کی شب اپنے خطاب میں مولانا نے کہا تھا کہ اتوار کے دن وہ 12 ربيع الاول کی مناسبت سے مارچ کو ’سیرت النبی کانفرنس‘ میں تبدیل کر دیں گے۔ اس موقعے پر انہوں نے اعلی عدلیہ کے ججوں کے خلاف ریفرنس واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ججز کے خلاف صدارتی ریفرنسز بدنیتی پر مبنی ہیں۔
بدھ کو آزادی مارچ سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نو منتخب صدر قلب حسن اور پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد علی شاہ نے بھی خطاب کیا تھا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے مولانا فضل الرحمان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ آزادی مارچ کے مطالبات میں حکومت کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف دائر ریفرنسز واپس لینے کا مطالبہ بھی شامل کریں۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں