بابری مسجد کیس کے فیصلے سے قبل انڈیا میں سینکڑوں گرفتاریاں
بابری مسجد کیس کے فیصلے سے قبل انڈیا میں سینکڑوں گرفتاریاں
جمعہ 8 نومبر 2019 16:45
بابری مسجد کو 1992 میں ہندو شدت پسندوں نے مسمار کر دیا تھا (فوٹو: روئٹرز)
انڈین سپریم کورٹ کی جانب سے تاریخی شہر ایودھیا میں بابری مسجد اور رام جنم بھومی مندر کے مقدمے کا فیصلہ سنائے جانے سے قبل پولیس نے بدامنی اور ہنگاموں سے بچنے کے لیے سینکڑوں افراد کو حراست میں لے لیا ہے اور مختلف شہروں میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مقامی حکام نے بتایا ہے کہ ایودھیا اور دیگر شہروں میں پولیس کی جانب سے 500 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ روئٹرز کے مطابق ایودھیا میں پانچ ہزار نیم فوجی دستے اور پولیس اہلکار تعنیات کر دیے گئے ہیں۔
بابری مسجد اور مندر کے تنازعے پر سپریم کورٹ میں مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جا رہی تھی۔
انڈین سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی سمیت پانچ رکنی بینچ نے مسجد اور مندر کے مقدمے کی سماعت 16 اکتوبر کو مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ فیصلہ کب سنایا جائے گا۔
امید کی جا رہی ہے کہ یہ فیصلہ آئندہ چند دنوں میں سنا دیا جائے گا کیونکہ چیف جسٹس آف انڈیا کی مدت ملازمت 17 نومبر کو ختم ہو رہی ہے۔
یہ مقدمہ 1961 میں سنی وقف بورڈ نے ایودھیا میں 277 ایکڑ اراضی کی ملکیت کے لیے کیا تھا جس پر 16ویں صدی سے بابری مسجد تعمیر تھی اور جسے 6 دسمبر 1992 میں ہندو شدت پسندوں کے ہاتھوں ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں مسمار کر دیا گیا تھا۔
اس کے بعد ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے تھے جن کے نتیجے میں لگ بھگ دو ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ہندو شدت پسند یہاں مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں تاہم انتظامیہ نے اس جگہ کی گذشتہ کئی دہائیوں سے ناکہ بندی کر رکھی ہے۔
اترپردیش پولیس کے سربراہ او پی سنگھ نے اکنامک ٹائمز کو بتایا ہے کہ انڈیا بھر میں سکیورٹی سخت کی جا رہی ہے اور اب تک 500 سے زائد افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
ان کے مطابق ’پولیس کے لیے ہمارا سادہ پیغام یہ ہے کہ امن ہر قیمت پر برقرار رکھا جائے۔‘
او پی سنگھ کے مطابق زیادہ تر مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا تاہم 70 افراد ایسے بھی ہیں جنہیں ان کی سوشل میڈیا پوسٹس کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ ’اگر ضرورت پڑی تو علاقے میں انٹرنیٹ بھی بند کیا جا سکتا ہے۔‘
ان کے مطابق لگ بھگ 10 ہزار ایسے افراد کی شناخت کی گئی ہے جو ’سماج مخالف‘ ہیں۔
یہ مقدمہ ایک عرصے تک سیشن کورٹ میں چلتا رہا ہے اور پھر اس کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ میں بھی اس کی سماعت ہوتی رہی۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے تین فریقین سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام للا کے درمیان زمین کی برابر تقسیم کا فیصلہ کیا تھا جس کے خلاف تینوں فریقین کے علاوہ بہت سے دیگر لوگوں نے بھی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
انڈین میڈیا کی رپورٹس کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے وزرا کو اس کیس کے حوالے سے بیانات نہ دینے کا کہا ہے۔