نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست شہباز شریف نے دی تھی۔ فوٹو: روئٹرز
لاہور ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے دائر درخواست پر لاہور ہائیکورٹ سماعت کر سکتی ہے۔
عدالت کے مطابق 18 نومبر کو نواز شریف کی مرکزی درخواست پر سماعت ہو گی۔
ہائیکورٹ نے شہباز شریف کے وکیل کی سنیچر کو مقدمہ سننے کی استدعا منظور کر لی ہے۔ اب درخواست پر سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے ہوگی۔
عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار کے حوالے سے جو اٹھایا گیا اعتراض ہے وہ بے بنیاد ہے۔
عدالت کے مطابق ’وفاقی حکومت کا دائرہ اختیار تمام صوبوں پر ہوتا ہے۔ اس لیے متعلقہ صوبے کی ہائیکورٹس اس طرح کے کیس پر سماعت کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ درخواست گزار نواز شریف لاہور کے رہائشی ہیں۔‘
جمعے کو لاہور ہائیکورٹ نے حکومتی وکیل کے اعتراضات کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔
درخواست کی سماعت جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل بینچ نے کی۔ سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی طرف سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان کے علاوہ نیب کے پراسکیوٹرز بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
اس موقعے پر جسٹس علی باقر نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق نیب نے ای سی ایل کا سارا معاملہ حکومت پر ڈال دیا ہے۔
اس کا جواب دیتے ہوئے وفاقی حکومت کے وکیل اشتیاق اے خان نے کہا ہے کہ ’نیب نے لیٹر جاری کیا کہ کسی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے اور نکالنے کا اختیار وفاقی حکومت کا ہے۔ وفاقی وزیر قانون نے نیب کے اس لیٹر کے بعد دوبارہ کہا کہ نیب اس معاملے پر بتائے۔‘
وکیل نے مزید کہا کہ ’شورٹی بانڈز نہیں مانگے بلکہ اینڈیمنیٹی بانڈر مانگے ہیں۔ اگر نواز شریف صاحب کو یہ بانڈز جمع کرانے کے حوالے سے تحفطات ہیں تو اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کریں۔‘
قبل ازیں عدالت میں اپنے دلائل دیتے ہوئے شہباز شریف کے وکیل ایڈووکیٹ امجد پرویز نے کہا تھا کہ ’نواز شریف سزا یافتہ ہونے کے باوجود بیمار اہلیہ کو چھوڑ کر بیٹی کے ساتھ پاکستان واپس آئے اور ہائیکورٹ نے ضمانت منظور کرتے ہوئے ای سی ایل سے نکالنے کے حوالے سے کوئی قدغن نہیں لگایا۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ایسے عدالتی فیصلے بھی موجود ہیں کہ پلی بارگین کرنے والے مجرموں کے نام بھی ای سی ایل سے نکالے گئے تاہم وفاقی کابینہ نے ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست پر شرائط عائد کر دی ہیں۔
وفاقی حکومت کے وکیل کے مطابق ہائیکورٹ کے پاس اس درخواست کی سماعت کا اختیار نہیں (فوٹو: اے ایف پی)
دوسری طرف وفاقی حکومت کے وکیل نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ نواز شریف کے خلاف مختلف عدالتوں میں کیسز زیر سماعت ہیں۔ حکومت نے نواز شریف کو چار ہفتے کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی ہے۔
وکیل نے مزید کہا تھا کہ نواز شریف کا نام نیب کے کہنے پر ای سی ایل میں ڈالا گیا ہے اور لاہور ہائیکورٹ کو اس درخواست کی سماعت کا اختیار نہیں ہے لہذا عدالت درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کرے۔
شہباز شریف کے وکیل کے بقول وفاقی حکومت نے اپنے جواب میں عدالت سے کہا کہ یہ درخواست لاہور ہائیکورٹ میں نہیں سنی جا سکتی تاہم نواز شریف کا کیس سننے کا اختیار لاہور ہائیکورٹ کے پاس بھی ہے۔ ’ایسے کئی عدالتی فیصلے موجود ہیں جو ہمارے موقف کی تائید کرتے ہیں۔‘
وکیل کے مطابق اس حوالے سے سابق صدر پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی مثال موجود ہے۔
شہباز شریف کے وکیل کے جواب میں جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ مشرف کیس کا نواز شریف کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ ’پرویز مشرف سزا یافتہ نہیں تھے پھر آپ کیسے پرویز مشرف کیس کا حوالہ دے سکتے ہیں۔‘
’حکومت نے بانڈز کی شرط ووٹرز کو مطمئن کرنے کے لیے رکھی‘
کیس کی سماعت کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ ’نواز شریف کی طبعیت بہت خراب ہے اور ان کے لیے 24 گھنٹے بھی اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وفاقی وزرا کہتے ہیں کہ حکومت نے نواز شریف کی روانگی کے لیے بانڈز کی شرط اپنے ووٹرز کو مطمئن کرنے کے لیے رکھی ہے جو شرم ناک عمل ہے۔‘
مسلم لیگ ن کے سپورٹرز نواز شریف کے حق میں نعرے بازی کر رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے ہائیکورٹ میں درخواست
جمعرات کو لاہور میں شہباز شریف نے کہا کہ حکومت زر ضمانت کی آڑ میں تاوان وصول کرنا چاہتی ہے، اس کے ذریعے بھی وزیر اعظم عوام کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔
انہوں نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا اور لاہور ہائیکورٹ میں درخواست بھی دائر کر دی جس میں وفاقی حکومت اور وزارت داخلہ کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے بیماری کی وجہ سے نواز شریف کی ضمانت منظور کی۔ عدالت غیر مشروط طور پر نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے۔
تاہم اس کے باوجود وزارت داخلہ کی جانب سے نام ای سی ایل سے نہیں نکالا گیا جبکہ حکومت کی جانب سے ای سی ایل سے نام نکالنے لیے شرائط رکھی جا رہی ہیں۔
خیال رہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سات سال کی سزا سنائی گئی، جبکہ چودھری شوگر ملز کیس چل رہا ہے۔
حکومتی وزرا کا لب و لہجہ لب لباب یہی رہا ہے کہ پیسے دیں، باہر چلے جائیں (فوٹو: پی آئی ڈی)
نواز شریف نیب حراست سے اڈیالہ، کوٹ لکھپت جیل اور پھر وہاں سے سروسز ہسپتال تک پہچنے، اس کے بعد جاتی امرا، وہ آٹھ ہفتے کے لیے ضمانت پر ہیں۔
ان کی صحت کے حوالے سے اب حکومت سمیت سب کا ہی یہ موقف ہے کہ وہ واقعی بیمار ہیں۔ اس سے قبل ان کی بیماری کے حوالے سے حکومتی حلقوں میں شبہات پائے جاتے تھے تاہم جب ان کے پلیٹ لیٹس کم ہونا شروع ہوئے تو انہیں سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا۔
اس کے اگلے روز ان کے بھائی اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے ضمانت کے لیے درخواست دی جو منظور ہوئی، اس کے چند روز بعد ہی مریم نواز کی بھی ضمانت کی درخواست منظور ہوئی تاہم ان کو اپنا پاسپورٹ عدالت کو پیش کرنا پڑا جس کا مطلب یہی تھا کہ وہ بیرون ملک نہ جا سکیں۔
تاہم مسئلہ ایک بار پھر وہاں پیدا ہوا جب میڈیکل بورڈ اور نواز شریف کے ذاتی معالج نے کچھ ایسے ٹیسٹ تجویز کیے جو صرف بیرون ملک ہو سکتے ہیں جبکہ دوسری طرف نواز شریف کا نام ای سی ایل میں تھا۔
اس کے بعد سے حکومت اور اپوزیشن میں ایک نئی ریس شروع ہوئی، روز بیان بازی ہوتی رہی تاہم پھراچانک حکومت کی جانب سے یہ تجویز سامنے آئی کہ اگر نواز شریف علاج کے لیے باہر جانا چاہتے ہیں تو اس بات کی گارنٹی دیں کہ وہ واپس آئیں گے اور گارنٹی بھی سکیورٹی بانڈ (زر ضمانت) کی شکل میں مانگی گئی اور سات ارب کی زر ضمانت کا بانڈ جمع کرانے کا کہا گیا۔
شہباز شریف کے بقول حکومت زر ضمانت کی آڑ میں تاوان وصول کرنا چاہتی ہے۔ فوٹو: روئٹرز
جس پر مسلم لیگ ن کی جانب سے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کیا گیا تاہم اس حوالے سے کوئی راستہ نکالنے کے لیے حکومت کے اجلاس پر اجلاس ہوتے رہے لیکن بات وہیں کی وہیں رہی کہ سکیورٹی بانڈ جمع کروایا جائے۔
وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری، وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم اور معاون وزیراعظم شہزاد اکبر نے اس حوالے سے جتنی بھی نیوز کانفرنسز کیں ان کا لب لباب یہی رہا ہے کہ پیسے دیں، باہر چلے جائیں۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں