انڈیا میں شہریت کے نئے ترمیمی قانون کے خلاف جاری احتجاجی مظاہروں کے دوران پولیس کے طلبا پر طاقت کے استعمال سے حالات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔
پولیس نے دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا پر فائرنگ کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ زخمی ہونے والے تین افراد پولیس کی فائرنگ سے نہیں بلکہ آنسو گیس کے شیل لگنے سے زخمی ہوئے ہیں تاہم مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق صفدر جنگ ہسپتال حکام نے کم از کم دو مظاہرین کو گولیاں لگنے کی تصدیق کی ہے جبکہ تیسرا شخص ایک راہگیر تھا۔
اس سے قبل انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے شہریت کے نئے قانون کے خلاف پرتشدد مظاہروں کے دوران عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے۔
دریں اثنا دہلی، ممبئی، حیدرآباد، لکھنؤ، کولکتہ میں بڑے احتجاجی مظاہرے نظر آئے۔ پیر کو ہونے والے مظاہرے زیادہ تر دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبہ کے خلاف پولیس آپریشن کے رد عمل میں سامنے آئے۔
مزید پڑھیں
-
انڈین شہریت بل، پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ زور پکڑ گیاNode ID: 448326
-
دہلی میں طلبا پر پولیس کا لاٹھی چارجNode ID: 448446
-
انڈیا میں جامعہ ملیہ کے طلبہ پر پولیس کا تشددNode ID: 448586
دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اتوار کی شام سے شروع ہونے والے پرتشدد واقعات پیر کی رات گئے جاری رہے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ وہ دیر رات تک شہریت کے ترمیمی بل اور وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ سب کے سب پر امن تھے لیکن ملک بھر سے ملنے والی حمایت نے ان میں ایک قسم کا جوش بھر دیا تھا۔
انڈیا میں ٹیکنالوجی کے معروف ادارے جو ملک کی شان کہے جاتے ہیں وہاں عام طور پر سیاسی سرگرمیاں بالکل نہیں ہوتیں لیکن گذشتہ روز کم از کم تین ایسے بڑے اداروں میں جامعہ کے طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جلوس نکالے گئے۔ ان میں آئی آئی ٹی بمبئے، آئی آئی ٹی مدراس اور آئی آئی ٹی کانپور اہم ہیں جبکہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ نے فوری کال دیتے ہوئے دہلی میں آئی ٹی او پر قائم دہلی کے پولیس ہیڈکوارٹر پر دھرنا دیا اور وہاں سے اس وقت تک نہ اٹھے جب تکہ جامعہ کے گرفتار کیے جانے والے تمام طلبہ کو پولیس حراست سے آزاد نہ کرا لیا۔
جامعہ سے موصول ہونے والی خبروں میں بتایا جاتا ہے کہ پولیس کی زیادتی کے وہ طلبہ بھی شکار ہوئے جو لائبریری میں پڑھ رہے تھے۔ زخمیوں کی تعداد 100 سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ جبکہ 50 سے زیادہ بچے حراست میں لیے گئے تھے۔
دوسری جانب علی گڑھ سے یہ خـبر آ رہی ہے کہ وہاں موسم سرما کی اچانک تعطیل کا اعلان کر دیا گیا ہے اور اتوار کی شام پولیس کیمپس میں داخل ہو گئی تھی۔ عام طور پر پولیس کو بغیر انتظامیہ کی اجازت کے یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہونے کی روایت نہیں رہی ہے، لیکن جامعہ اور پھر علی گڑھ والے معاملے میں پولیس مستثنیٰ رہے۔
شمال مشرقی ریاست آسام کے دارالحکومت گوہاٹی سے کرفیو ختم کر دیا گیا ہے جبکہ ڈبروگڑھ میں اس میں نرمی کی گئی ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق پورے ملک کے 36 اداروں میں شہریت کے نئے قانون کے خلاف مظاہرے ہوئے جس میں بی جے پی کے رہنماؤں کے پتلے جلائے گئے۔
اخبار کے مطابق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک طالب علم کا آنسو گیس کا شیل لگنے سے دایاں ہاتھ جاتا رہا۔ جبکہ پولیس کے ساتھ تصادم میں 60 طلبہ زخمی ہوئے ہیں اور پولیس نے 52 افراد کے خلاف تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے جس میں قتل کی کوشش کی دفعات بھی شامل ہیں۔
بالی وڈ کے معروف نغمہ نگار اور سکرپٹ رائٹر جاوید اختر نے ٹویٹ کیا 'ملک کے قانون کے مطابق کسی بھی صورت حال میں پولیس یونیورسٹی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کسی یونیورسٹی کیمپس میں داخل نہیں ہو سکتی۔ جامعہ کیمپس میں بغیر اجازت داخل ہو کر پولیس نے ایک نئی روش شروع کی ہے جس سے ہر یونیورسٹی کو خطرہ ہے۔'
According to the law of the land under any circumstances police can not enter any university campus with out the permission of the university authorities. By entering the Jamia campus with out permission police has created a precedence that is a threat to every university .
— Javed Akhtar (@Javedakhtarjadu) December 16, 2019
جاوید اختر کے اس ٹویٹ کے جواب میں آئی پی ایس افسر سندیپ متل نے لکھا 'ڈیئر ماہر قانون، برائے مہربانی ملک کے قانون پر روشنی ڈالیں کہ کس قانون اور اس کی کس شق کے تحت ایسا کیا گيا تاکہ ہم لوگوں کے بھی علم میں اضافہ ہو۔'
Dear Legal Expert
Please elaborate the law of land, the section number and name of the Act etc so that we are also enlightened.
Regards— Sandeep Mittal, IPS (@smittal_ips) December 16, 2019
سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ بالی وڈ 'بادشاہ' شاہ رخ خان سے جامعہ ملیہ سے تعلق کے ناطے اظہار ہمدردی کے خواہاں نظر آئے۔ بہر حال شاہ رخ خان نے تو کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا لیکن اداکار راجکمار راؤ اور اداکارہ کونکنا سین نے پولیس ایکشن کی مذمت کی جبکہ فلم ساز النکریتا شریواستو نے منگل کو ٹویٹ کیا اور کہا کہ ان کا دل جامعہ کے طلبہ کے لیے خون کے آنسو رو رہا ہے جن پر بے رحمی سے حملہ کیا گيا۔'
انھوں نے جامعہ کے ساتھ اظہار یکجہتی میں بہت سے ٹویٹ کیے۔
Nothing can justify what has happened to the students. The broken legs, the lost eye, the assaults in the darkness, the barbaric beating up of the innocent, the vandalising of a space of learning, the invasion of the student hostels. History will remember.
— Alankrita Shrivastava (@alankrita601) December 16, 2019
گذشتہ روز وزیر اعظم نریندر مودی نے شہریت کے نئے قانون کے خلاف ملک گیر احتجاج پر متعدد ٹویٹس کیں۔ انھوں نے لکھا 'شہریت کے ترمیمی قانون پر پرتشدد احتجاج بدقسمتی اور تشویشناک امر ہے۔ بحث و مباحثہ، مکالمے اور اختلاف رائے جمہوریت کے لازمی اجزا ہیں، لیکن سرکاری املاک کی تباہی اور عام زندگی کو درہم برہم کرنا کسی صورت درست نہیں۔'
Violent protests on the Citizenship Amendment Act are unfortunate and deeply distressing.
Debate, discussion and dissent are essential parts of democracy but, never has damage to public property and disturbance of normal life been a part of our ethos.
— Narendra Modi (@narendramodi) December 16, 2019