انڈیا میں شہریت بل میں ترمیم کے خلاف مظاہروں میں شدت آتی جا رہی ہے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق 20 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، دوسری جانب پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی اس پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انڈیا میں ہونے والے مظاہرے عوامی تحریک کی شکل اختیار کر رہے ہیں اوران بڑھتے مظاہروں سے پاکستان کو خطرہ ہے۔
سنیچر کو اپنی ٹویٹ میں عمران خان نے مزید لکھا ’اگر انڈیا اپنے اندرونی مسائل سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے اور ہندو قومیت کے جذبات مشتعل کرنے کے لیے ایسی کسی بھی کارروائی کا سہارا لیتا ہے تو پاکستان کے پاس منہ توڑ جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوگا۔‘
ان کاکہنا تھا کہ ’قابض بھارتی افواج مقبوضہ کشمیر کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں جس کے اٹھتے ہی قتل وغارت گری کا اندیشہ ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
’نوجوان ایل او سی پر جانا چاہتے ہیں‘Node ID: 433421
-
انڈیا: ’یہ صرف مسلمانوں کو بچانے کی لڑائی نہیں‘Node ID: 449051
-
انڈیا: پرتشدد مظاہروں میں بچے سمیت مزید 5 افراد ہلاکNode ID: 449346
عمران خان نے لکھا کہ انڈیا کے آرمی چیف کے بیان سے پاکستان کے خدشات کو تقویت ملی ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل انڈین آرمی چیف بپن راوت نے کہا تھا کہ انڈیا کو ایل او سی پر پاکستان کے ساتھ کشیدگی کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
بپن راوت کے بیان کے جواب میں پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے لکھا تھا کہ انڈین آرمی چیف کے ایل او سی پر کشیدگی کے بیانات سے ظاہر ہے کہ وہ دنیا کی توجہ انڈیا میں متنازع بل کے خلاف ہونے والے مظاہروں سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ تاہم ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اگر انڈیا نے کوئی کارروائی کی تو پاکستانی فوج اس کا منہ توڑ جواب دے گی۔
مودی سرکار کے گزشتہ 5 سالہ دورحکومت میں نسلی بالادستی کےسفاک نظریے ہندوتوا کے سائےمیں بھارت کا رخ ہندوراشٹرا کی جانب موڑا گیا۔ قانونِ شہریت میں ترمیم کے بعد تو تکثیری اوصاف کے حامل ہندوستان کے خواہاں بھارتی بھی احتجاج کی راہ پرچل نکلے ہیں اورہندوستان میں ایک بڑی تحریک ابھررہی ہے.
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) December 21, 2019
اس بل کے تحت افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی چھ مذہبی اقلیتی برادریوں کو انڈیا کی شہریت کی اجازت ہوگی جس میں مسلمان شامل نہیں ہیں۔
بنگلہ دیش اور پاکستان نے بھی اس بل کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر چہ یہ انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے لیکن اس سے بین الاقوامی سطح پر ایک پیغام جاتا ہے کہ انڈیا نے یہ قانون اس لیے بنایا کیونکہ اس کے پڑوسی ممالک میں اقلیتیں تشدد کا شکار ہیں اور یہی بات جو بنگلہ دیش کو ناگوار گزری ہے کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ ان کے ملک میں کسی بھی مذہبی اقلیت کے ساتھ زیادتی نہیں کی گئی ہے۔
انڈیا کے کئی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ مودی کے 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد ان کو دوسرے درجے کا شہری باور کرایا جا رہا ہے۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں