Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آرمی چیف کی مدت، نظر ثانی کی درخواست

درخواست میں فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کی وفاقی حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے۔ ترجمان وزارت قانون کے مطابق درخواست میں لارجر بینچ تشکیل دینے اور سماعت ان کیمرہ کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ تین رکنی بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عدالت نے فیصلے میں کئی آئینی نکات کا جائزہ نہیں لیا۔  درخواست میں حکومت کی جانب سے موقف اپنایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ ماضی میں ایڈیشنل اور ایڈہاک ججز کو توسیع دیتی رہی ہے۔ عدالت نے ججز توسیع کیس کے فیصلوں کو بھی مدنظر نہیں رکھا۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ایگزیکٹو کے اختیارات کو کم کر دیا ہے۔ آرمی چیف کی مدت کا تعین وزیر اعظم کا اختیار ہے۔ قانون میں آرمی چیف کی ٹرم کا تعین کرناضروری نہیں ہے۔ آرمی چیف کی مدت کا تعین کرنا آئین کے  منافی ہے۔ قانون میں آرمی چیف کی مدت کا تعین نہ ہونے کا مقصد یہ ہے کہ وزیراعظم جب چاہیں رکھیں جب چاہیں ہٹا دیں۔
 آرمی سکیورٹی کا ادارہ ہے اور ملکی سلامتی سے منسلک  ہیں۔ عدالت اپنے 28 نومبر کے مختصر اور 16 دسمبر کے تفصیلی پر نظرثانی کرے۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ پارلیمنٹ آرمی چیف کی توسیع سمیت دیگر امور پر چھ ماہ میں قانون سازی کرے۔ فوٹو:اے ایف پی

حکومت کی جانب سے نظر ثانی دائر کی درخواست دائر کرنے کے معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق وزیر قانون ڈاکٹر خالد رانجھا نے کہا کہ ’نظرثانی میں پورے فیصلے کو کالعدم قرار دینے، لارجر بینچ اور ان کیمرہ سماعت کی استدعا نہیں کی جا سکتی۔ نظرثانی کا قانون یہ ہے کہ فیصلے میں اگر کسی قانونی نکتے کے بارے میں کوئی بات رہ گئی ہو تو اس کی وضاحت کرنے کا کہا جائے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ اپنی اس استدعا کے ساتھ حکومت کو نظرثانی دائر کرنی چاہیے تھی۔ حکومت کو تو اس درخواست میں فریق بنایا گیا تھا اور حکومت نے اپنا جواب دے دیا تھا۔ اس جواب کی روشنی میں ہی عدالت نے فیصلہ دیا تھا۔‘
قانون دان  کامران مرتضی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’نظرثانی اگرچہ دستوری حق ہے اور اس نظرثانی کرنا یا نہ کرنا سپریم کورٹ کا اختیار ہے لیکن  خود بیان حلفی دینے اور عدالت میں معاملہ حل کرنے کے بعد نظرثانی دائر کرنا بتاتا ہے کہ نہ صرف حکومت بلکہ ادارے بھی تذبذب کا شکار ہیں۔‘

عدالتی فیصلے کے مطابق پارلیمان آرمی چیف کے عہدے کی مدت کا تعین کرے۔

اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ’یہ پاکستان کے لیے اچھا نہیں ہے کہ حکومت اور اداروں میں بیٹھے لوگ اس قدر تذبذب کا شکار ہوں۔ پھر ان کے فیصلے بھی عوام میں تذبذب پیدا کریں گے۔ یہ ان کی صلاحیتوں پر سوال ہے۔‘
کامران مرتضی نے کہا کہ ’حکومت نے تو قانون سازی کے لیے تین ماہ مانگے تھے۔ عدالت نے چھ ماہ دیے۔ مجھے تو یہ لگتا ہے کہ حکومت کی بدنیتی ہے کہ یہ فوج جیسے ادارے اور اس کے سربراہ کو رسواکرنا چاہتی ہے۔‘  یاد رہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں چھ ماہ کی مشروط توسیع کرتے ہوئے معاملہ پارلیمنٹ کو بھجوا دیا تھا۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے 16 دسمبر کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت سے متعلق کیس میں تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پارلیمنٹ چھ ماہ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت توسیع اور ریٹائرمنٹ سے متعلق قانون سازی نہیں کرتی صدر مملکت نئے آرمی چیف کی تعیناتی کریں گے۔
43 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا جب کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے دو صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ تحریر کیا۔
فیصلے میں کہا گیا  کہ ’اب معاملہ پاکستان کے منتخب نمائندوں کی طرف ہے، پارلیمان آرمی چیف کے عہدے کی مدت کا تعین کرے۔‘

سابق وزیر قانون خالد رانجھا کے مطابق نظرثانی درخواست میں لارجر بینچ تشکیل دینے کی استدعا نہیں کی جا سکتی۔ فوٹو:اے ایف پی

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ آرمی چیف کی تعیناتی، مدت ملازمت، دوبارہ تقرری یا توسیع سمیت دیگر امور پر چھ ماہ کے اندر قانون سازی کرے۔
حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ پارلیمنٹ پر ہے کہ وہ نئے قانون کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کو ہی توسیع دے یا کسی نئے جنرل کو آرمی چیف لگائے۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں یہ بھی حکم دیا ہے کہ وفاقی حکومت ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت آرٹیکل 243 کے دائرہ کار کا تعین کرے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف نئی تقرری چھ ماہ کے لیے ہوگی اور ان کی موجودہ تقرری بھی مجوزہ قانون سازی سے مشروط ہوگی جبکہ نئی قانون سازی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت کا تعین کرے گی۔

شیئر: