Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹینس کورٹ سے نسل در نسل جڑا خاندان

 1930کی دہائی میں جب سادات خان پشاور سے نکل کر بنوں میں انگریز فوج کے کلب میں گراونڈز مین بننے پہنچے تو انہوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ٹینس کے میدان سے جڑنے والا ان کا یہ رشتہ ان کی آنے والی نسلوں کی رگوں میں رچ بس جائے گا۔
ان کا کام کلب کے ٹینس کورٹس کی گھاس کاٹنا، اس کو پانی دینا، اور گورے فوجیوں کے کھیل کے لیے کورٹ پر چونے سے نشان لگانا تھا۔
سادات خان کے بعد ان کے بیٹے جمیل خان نے بھی بنوں کے آرمی کلب میں یہ کام شروع کر دیا۔
لیکن قیام پاکستان کے بعد جب برطانوی فوجی واپس گئے تو بنوں میں ٹینس کھیلنے والا کوئی نہ بچا اور یہ گراس کورٹس جن کو سعادت خان  نے بڑی محنت سے تیار کیا تھا، ویران ہونا شروع ہو گئے۔
یہ حالات دیکھ کر جمیل خان نے بنوں سے کراچی ہجرت کا فیصلہ کیا۔
کراچی پہنچ کر انہوں نے پی ڈبلیو ڈی ہاوسنگ سوسائٹی کے کلب میں نوکری شروع کی۔ سنہ 1972 میں وہ پی ڈبلیو ڈی سے ’ماڈرن کلب‘ چلے گئے جہاں پر انہیں ٹینس کے ہارڈ کورٹس (سیمنٹ سے بنے ہوئے کورٹس) کی دیکھ بھال سونپی گئی۔
’جب میرے بچوں نے ہوش سنبھالا تو میں نے بھی اپنے والد کی طرح انہیں کورٹ پر لانا شروع کر دیا۔ میرے بچے کلب میں ٹینس کھیلنے کے لیے آنے والے کھلاڑیوں کو گیندیں پکڑانے کے لیے ’بال بوائے‘ بن گئے۔‘
بچپن سے والد کو ٹینس کورٹ میں آتے جاتے دیکھ کر جمیل خان کے بچوں میں اس کھیل سے متعلق دلچسپی بڑھتی گئی۔
جمیل خان کے سب سے بڑے بیٹے شکیل خان نے سکواش کھیلنا شروع کر دی اور کھیلتے کھیلتے امریکہ پہنچ گئے۔ جب کہ تینوں چھوٹے بیٹے پاکستان میں ٹینس کے بہترین کھلاڑی بن کر سامنے آئے۔ ان کے بیٹے عقیل خان اس وقت بھی گذشتہ کئی برس سے پاکستان کے نمبر ون ٹینس کھلاڑی ہیں۔ دو چھوٹے بیٹے جلیل خان اور یاسر خان بھی ٹینس میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ بلکہ کئی مرتبہ یہ تینوں بھائی ایک وقت میں پاکستان کی ٹاپ رینکنگز پر براجمان رہ چکے ہیں۔
  پاکستان کے لیے کئی بین الاقوامی مقابلے جیتنے والے عقیل خان جو بیرون ملک بہت سے ٹورنامنٹس کھیل چکے ہیں، کہتے ہیں کہ ان کے کھیل میں نکھار وہ بال بوائے بننے سے آیا جو ان کے والد نے بچپن میں ان کو کورٹ میں لا کر بنایا۔ اب وہ اپنے بیٹے کو بھی تین سال کی عمر میں کورٹ لا کر اس کی صلاحیتوں کو بھی چمکانا چاہتے ہیں جس کے بعد ان کے خاندان کی چوتھی نسل ٹینس کورٹ سے جڑ جائے گی۔
’میں اپنے بیٹے کو ٹینس کورٹ لاؤں گا۔ اگر وہ اس عمر میں بال بوائے بن جاتا ہے تو اس کو درست انداز میں ٹینس سیکھنے میں مدد ملے گی اور وہ اس پر پوری توجہ مرکوز کر سکے گا۔‘
عقیل خان کہتے ہیں کہ ٹینس ان کے خاندان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ’میری تو یہ سمجھیں کہ پیدائش ہی ان کورٹسں پر ہوئی، میں شاید پانچ یا چھ سال کا تھا، تب سے اب تک میں یہیں ہوتا ہوں۔‘
عقیل خان کے مطابق اگر ان کے والد بچپن میں ان کو بال بوائے نہ بناتے تو ان کا کھیل اتنا اچھا نہیں ہو سکتا تھا۔

عقیل خان کہتے ہیں کہ ٹینس ان کے خاندان کا اوڑھنا بچھونا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

جمیل خان کا گھر ماڈرن کلب سے متصل ہے، جس کی وجہ سے ان کے بیٹے عقیل خان، جلیل خان اور یاسر خان تقریبا ہر وقت کورٹ پر موجود رہتے ہیں اور اپنے والد کے ساتھ مل کر نوجوانوں کی کوچنگ کرتے ہیں۔
لیکن جمیل خان کا کہنا ہے کہ ٹینس کھیلنے والے نوجوانوں کی اب اس کھیل میں اتنی ہی دلچسپی ہے کہ وہ اس کی بنیاد پر بیرون ملک کسی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیں۔
اگر ان کی ابتدا ٹینس کورٹ کے بال بوائے کے طور پر ہوئی ہوتی تو آج ان کے کھیل میں بہت نکھار ہوتا اور پاکستان سے کئی عقیل خان پیدا ہو چکے ہوتے۔
ان کے خیال میں حکام کی عدم دلچسپی بھی اس کھیل کی زبوں حالی کی ایک وجہ ہے اور اب یہ محض شرفا کے فارغ وقت کا ایک مشغلہ اور ورزش کا بہانہ بن کر رہ گیا ہے۔

شیئر: