پاکستان کی وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مہنگائی کا شکار غریب افراد کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے خصوصی راشن کارڈز جاری کیے جائیں گے۔ ان راشن کارڈز کے ذریعے 50 لاکھ غریب خاندانوں کو یوٹیلٹی سٹورز کے ذریعے کم نرخوں پر اشیائے خور و نوش فراہم کی جائیں گی۔
منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ’اس کارڈ کے ذریعے یوٹیلٹی سٹورز پر آٹا، چینی، گھی اور دالیں مارکیٹ سے 15 سے 20 فیصد کم نرخوں پر فراہم کی جائیں گی۔‘
راشن کارڈ کیا ہوتا ہے اور کیوں جاری کیا جاتا ہے؟
وکی پیڈیا کے مطابق راشن کارڈ ایک سرکاری دستاویز، کارڈ یا سٹامپ ہوتا ہے جو زمانہ جنگ میں خوراک کی قلت ہونے سے بچانے کے لیے جاری کیا جاتا ہے تاکہ ذخیرہ اندوزی سے بچا جا سکے۔ راشن کارڈ کا استعمال دوسری عالمی جنگ کے دوران فریقین کی جانب سے متعارف کرایا گیا تھا۔ جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد بھی یہ نظام اس وقت تک نافذ رہا جب تک غذائی قلت کا خاتمہ نہیں ہو گیا۔
مزید پڑھیں
-
غربت کے خاتمے کے لیے نئی وزارت کا اعلانNode ID: 411761
-
غیر مستحق افراد وظیفے کی فہرست سے باہرNode ID: 449916
-
وظیفہ لینے والے افسران کو شوکاز نوٹسزNode ID: 453691
راشن کارڈ اس وجہ سے بھی جاری کیا جاتا ہے کہ ملکی سطح پر غذائی اجناس کا ایک مخصوص ذخیرہ برقرار رکھا جا سکے اور کوئی ایک فرد کسی دوسرے فرد سے زیادہ راشن خرید کر اپنے پاس نہ رکھ سکے۔
راشن کارڈ امریکہ، انڈیا، برطانیہ، پولینڈ اور پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں استعمال ہوتا رہا ہے۔
راشن کارڈ کے ساتھ زندگی کیسے ہوتی ہے؟
انڈیا میں راشن کارڈ اب بھی استعمال ہوتا ہے۔ 2013 میں نیشنل فوڈ سکیورٹی ایکٹ کی منظوری کے بعد دو اقسام کے راشن کارڈز جاری کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک راشن کارڈ خط غربت سے اوپر اور ایک کارڈ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کے لیے ہوتا ہے۔
پاکستان میں راشن کارڈ ایوب خان کے دور میں رائج تھے جو چینی اور آٹے کے بحران کے دوران جاری کیے گئے تھے تاکہ ملک میں ذخیرہ اندوزی کو روکا جا سکے۔ اس دور میں مہینے میں ایک بار مخصوص مقدار میں آٹا اور چینی عوام کو فراہم کی جاتی تھی۔
![](/sites/default/files/pictures/February/37246/2020/poor_pakistanis_afp_0.jpg)
سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے ’اردو نیوز‘ سے گفتگو میں کہا کہ ’راشن کارڈ کا تصور قلت سے ہے۔ ایوب دور کے بارے میں پڑھا ہے کہ اس وقت زندگی مختلف ہوا کرتی تھی۔ اگر کسی چیز کی مارکیٹ میں قلت ہوتی تو حکومت راشن کارڈز پر خریداری کا حکم جاری کر دیتی تھی۔ اس سے یہ ہوتا تھا کہ ذخیرہ اندزی کا فائدہ نہیں ہوتا تھا اور عوام میں بھی لوگ برابر خریداری کر سکتے تھے۔‘
ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے یونیورسٹی دور کا واقعہ بیان کیا اور کہا کہ ’اس وقت ریسٹورنٹس کو حکم صادر ہوا تھا کہ وہ گاہکوں کو چائے کے ساتھ صرف ایک چمچ چینی ہی فراہم کریں گے۔ مجھے یاد ہے کہ ہماری ایک کلاس فیلو کو چائے میں چار چمچ چینی ڈالنے کی عادت تھی اور وہ اکثر ضد کرتی کہ اسے زیادہ چینی دی جائے لیکن ریستوران والے ڈرتے ہوئے اسے مزید چینی دینے سے کتراتے تھے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/February/37246/2020/u_stores_1.jpg)
ڈاکٹر قیصر بنگالی نے بتایا کہ ’راشن کارڈ کا تعلق غربت سے نہیں تھا بلکہ وہ امیر غریب ہر ایک کو دیے جاتے تھے۔ لوگ اسی راشن کارڈ سے چینی خریدتے جو مہینے میں صرف ایک ہی بار ملتی تھی۔‘
راشن کارڈ سے کتنا ریلیف ممکن ہے؟
یہ پہلی دفعہ ہے کہ حکومت نے راشن کارڈ کو غربت اور مہنگائی سے جوڑ کر جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے وزارت انسداد غربت اور یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن مل کر اقدامات کریں گے۔
دوسری جانب ماہرین سمجھتے ہیں کہ حکومت نے ہوم ورک کیے بغیر اتنا بڑا قدم اٹھایا ہے جس پر عمل درآمد میں اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
![](/sites/default/files/pictures/February/37246/2020/cards_1.jpg)
ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’کیا حکومت ان 50 لاکھ خاندانوں کو بھی راشن کارڈز جارے کرے گی جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ساتھ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں یا ان کے علاوہ دیگر لوگوں کو یہ کارڈز جاری کیے جائیں گے؟ راشن کارڈ کے ذریعے ریلیف فراہم کرنے کا مطلب ہے کہ حکومت 40 روپے کی چیز خرید کر عوام کو 10 روپے میں بیچے گی۔ اس کے لیے رقم کہاں سے آئے گی؟‘
انھوں نے کہا کہ ’ اس وقت حکومت کے پاس رعایتی نرخوں پر اشیا فراہم کرنے کے لیے پیسے موجود نہیں ہیں۔ اگر وہ رقم بجٹ سے نکالی جائے گی تو بجٹ خسارے میں اضافہ ہو گا جو آئی ایم ایف کے ساتھ جاری بات چیت کو متاثر کرے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنی بیلنس شیٹ پر نظر دوڑائے۔‘
سابق سیکرٹری خزانہ وقار مسعود کا کہنا تھا کہ ’سمجھ نہیں آتی کہ حکومت 50 ہزار یوٹیلٹی سٹورز کیسے کھولے گی؟ یہ بہت بڑی تعداد ہے اور اتنے وسیع پیمانے پر اتنی قلیل مدت میں اس پر عمل درآمد ممکن نہیں ہے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/February/37246/2020/poor_people_pak_afp.jpg)
انھوں نے کہا کہ ’ حکومت کا راشن کارڈ کو مہنگائی اور غربت سے جوڑ کر جاری کرنے کا ارادہ اچھا ہے لیکن دنیا میں اس کا تصور موجود نہیں ہے۔ اس لیے حکومت کو خیال سے چلنا ہو گا کیونکہ ناکامی کی صورت میں اسے سخت دھچکہ لگے گا۔‘
کیا راشن کارڈ مہنگائی کا مستقل حل ہے؟
پاکستان میں جب بھی کوئی بحران آتا ہے تو اس کا وقتی حل تلاش کیا جاتا ہے لیکن مستقل حل کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر ابتدا میں تنقید کی گئی کہ یہ لوگوں کو روزگار دینے کے بجائے وظیفے کی عادت ڈال رہا ہے، تاہم بعد ازاں وسیلہ روزگار پروگرام اور اب احساس پروگرام کے ذریعے لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ ’حکومت عوام سے روزگار چھین کر ان کے ہاتھ میں راشن کارڈز دے رہی ہے۔ آپ بے شک آدھی قیمت پر اشیائے خور و نوش فراہم کریں لیکن اس کے پاس آدھی قیمت دینے کے لیے روزگار تو ہونا چاہیے۔ مہنگائی کا مستقل حل راشن کارڈ نہیں بلکہ روزگار ہے تاکہ عوام خود کما کر کھا سکیں۔‘
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں