Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کتنے آدمی تھے!

امریکی صدر نے کہا تھا کہ انڈیا میں لاکھوں لوگ ان کا استقبال کریں گے
تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دورہ کتنا کامیاب رہا؟ احمدآباد کی سڑکوں پر کتنے لوگوں نے ان کا استقبال کیا؟ 70 لاکھ سے ایک کروڑ کے درمیان لوگ جمع ہو پائے یا نہیں جیسا کہ انڈیا آنے سے پہلے صدر مستقل دعویٰ کر رہے تھے کہ وزیراعظم مودی نے ان سے وعدہ کیا ہے؟
مختصر جواب یہ ہے کہ 70 لاکھ تو دور دور تک نہیں تھے، پھر بھی کافی تھے۔ لیکن سٹیڈیم پہنچنے تک مسٹر مودی نے یہ دعا ضرور کی ہو گی کہ کہیں صدر ٹرمپ گاڑی رکوا کر گنتی کرنا شروع نہ کر دیں۔
گنتی میں وقت بھی بہت لگتا اور اگر کچھ کم رہ جاتے تو ہمیں معلوم ہے کہ رات ہو یا دن، صدر ٹرمپ ٹویٹ کرنے میں دیر نہیں لگاتے: وعدہ کیا تھا 70 لاکھ کا لیکن 40 آدمی کم تھے، میں نے خود گنتی کی ہے! دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سے آپ یہ توقع نہیں کرتے! 
لیکن موٹیرا سٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور اس میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ اور یہ منظر دیکھ کر صدر ٹرمپ کے چہرے پر خوشی صاف نظر آرہی تھی۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ آج کل عام طور پر کرکٹ کے میچ کے لیے بھی سیڈیم میں اتنی بھیڑ جمع نہیں ہوتی۔
لوگ سوچتے ہیں کہ گرمی میں کون پریشان ہو، کیوں نہ گھر میں ہی بیٹھ کر آرام سے ٹی وی پر میچ دیکھا جائے؟ لیکن صدر ٹرمپ میں جو کشش ہے وہ کرکٹ میں کہاں؟ غیر ملکی مہمان نے احمدآباد کے موٹیرا سٹیڈیم میں یہ ثابت کردیا کہ انڈیا میں وہ کرکٹ سے بھی زیادہ مقبول ہیں۔
شاید اسی وجہ سے صدر کی تقریر کے بعد سٹیڈیم میں میچ نہیں کرایا گیا۔ ورنہ جب لوگ آ ہی گئے تھے تو کیا مسئلہ تھا کہ 20،20 اوورز کا ایک میچ بھی کرا دیا جاتا؟ لیکن اگر ایسا ہوتا تو ذرا سوچیے کہ لوگ کیا کہتے: ہم صدر ٹرمپ کی تقریر سننے آئے تھے، کیا فراٹے دار انگریزی بولتے ہیں وہ! ان کی مدبرانہ باتیں سننے کے بعد کرکٹ کے میچ پر کون وقت برباد کرے، چلو اب چل کر اپنے دھندے پر لگتے ہیں! اور اگر لوگ صدر ٹرمپ کی تقریر کے بعد میچ بیچ میں ہی چھوڑ کر چلے جاتے تو ذرا سوچیے کہ نوجوان کرکٹرز کی کتنی حوصلہ شکنی ہوتی، اور میدان سے نکلتے وقت جب لوگ ان سے کہتے کہ سٹیڈیم بھرنا ہے تو کرکٹر نہیں ٹرمپ بنو، تو ان کے دلوں پر کیا گزرتی۔ اس لیے اچھا ہی ہوا کہ سٹیڈیم میں میچ نہیں کرایا گیا۔

دورہ انڈیا میں امریکی صدر کے ساتھ ان کی بیٹی اور داماد بھی موجود ہیں (فوٹو:اے ایف پی)

بہرحال، لوگوں کو جمع کرنا آسان کام نہیں ہے۔ میں نے ایک ٹی وی چینل پر مبصرین کو کہتے ہوئے سنا کہ اگر صرف یہ اعلان کردیا جاتا کہ صدر ٹرمپ کی تقریب میں امریکہ کے ویزا کی لاٹری بھی نکالی جائے گی تو بھیڑ اپنے آپ ہی جمع ہوجاتی!
موٹیرا سے صدر ٹرمپ سیدھے آگرہ گئے جہاں تاج محل کو ان کے لیے سجایا سنوارا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ’فرسٹ فیملی‘ کو تاج محل بہت پسند آیا، یہ فن تعمیر کا بے پناہ حسین نمونہ تو ہے ہی، بہترین ’رئیل سٹیٹ‘ بھی ہے۔
لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کو آپ کیا سمجھتے ہیں، وہ بھی رئیل سٹیٹ کے بے تاج بادشاہ ہوا کرتے تھے۔
30 سال پہلے انہوں نے بھی امریکہ میں تاج محل بنایا تھا اور کہا جاتا ہے کہ اس پر سوا ارب ڈالر لاگت آئی تھی۔ اصلی تاج محل دیکھ کر ان کے ذہن میں یہ سوال تو آیا ہی ہوگا کہ اتنا پیسا لگانے کے بعد شاہ جہاں نے اس سے کمایا کیا ہو گا؟ رٹرن کتنا ملا ہوگا؟ میری طرح ’کسینو‘ بنایا ہوتا تو دو سال میں پوری لاگت وصول ہوجاتی اور شاید اورنگزیب کو چھوڑ کر باقی نسلیں سکون سے بیٹھ کر کھاتیں۔
سنا ہے کہ اورنگزیب کا مزاج کچھ الگ ہی تھا۔ کسینو نہ بھی بناتے، چاروں طرف اتنی بہترین ’پرائم پراپرٹی‘ خالی پڑی ہے، فلیٹ ہی بنا دیتے۔ ہر فلیٹ سے تاج محل کا بہترین ویو ملتا تو سارے ٹاور ہاتھوں ہاتھ بک جاتے۔

امریکی صدر اور ان کے وفد نے تاج محل آگرہ  کا دورہ بھی کیا (فوٹو:اے ایف پی)

بہرحال، یہ کہنا مشکل ہے کہ انہوں نے یہ آئیڈیا وزیراعظم مودی سے ڈسکس کیا کہ نہیں، یا یہ پوچھا کہ نہیں کہ جہاں ہم اتنے بڑے بڑے معاہدے کر رہے ہیں، کیوں نہ ساتھ ہی تاج محل کی ایک لیز بھی سائن کر لیں؟ اس بہانے آنا جانا بھی لگا رہے گا۔
لیکن سچ یہ ہے کہ صدر کے دورے کی کامیابی سڑکوں پر کھڑے ہوکر ان کا استقبال کرنے والوں کی تعداد سے نہیں ناپی جا سکتی۔ دونوں ملکوں نے تین ارب ڈالر کی ایک ڈیل کو حتمی شکل دی ہے جس کےتحت امریکہ انڈیا کو جدید ترین فوجی ہیلی کاپٹر اور دیگر فوجی سازو سامان سپلائی کرے گا۔
اس کے علاوہ باہمی رشتوں کو ’اپ گریڈ‘ کرنے، ’پاکستان سے سرگرم‘ شدت پسندوں اور ریڈیکل اسلامک دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کی ضرورت پر بھی اتفاق ہوا۔
 امریکہ میں تو اس دورے کا زیادہ ذکر نہیں ہوا لیکن انڈیا میں اسے وزیراعظم مودی کے لیے ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ لیکن جب صدر ٹرمپ آگرہ گھوم رہے تھے اور جب انہیں راشٹرپتی بھون (صدارتی محل) میں گارڈ آف آنر یش کیا جا رہا تھا، اس وقت دلی کے کچھ علاقے جل رہے تھے۔ یہ صدر کے استقبال میں چراغاں نہیں تھا، وہاں شہریت کے نئے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں، اور انہیں سبق سکھانے والوں کے درمیان خونریز تصادم ہو رہا تھا جس میں کم سے کم سات جانیں ضائع ہوئیں۔

صدر ٹرمپ کے دورے کے دوران متنازع شہریت بل کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہوئے (فوٹو:اے ایف پی)

لیکن زیادہ تر ٹی وی چینل اس خونریزی کو، جو ان کے اپنے دروازے پر ہو رہی تھی، نظر انداز کرتے رہے کیونکہ شہر میں امریکہ کے صدر آئے ہوئے تھے، وہ، ان کی اہلیہ، بیٹی اور داماد کیا کھائیں گے، کیا پئیں گے، کہاں جائیں گے، انہوں کیا پہنا ہے۔۔۔ یہ بڑی خبر تھی، باقی لڑائی جھگڑے تو چلتے ہی رہتے ہیں، صدر کے جانے کے بعد دیکھا جائے گا۔
ٹی وی چینلوں کی کوریج دیکھ کر ایک مرتبہ ذہن میں یہ سوال ضرور آیا کہ صرف وزیراعظم مودی نہیں، دنیا کا کوئی بھی رہنما یا جنوبی ایشیا کی پوری قیادت بھی امریکہ گئی ہوئی ہوتی، اور واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے قریب جھگڑوں میں سات لوگ مارے جاتے تو کیا امریکی نیوز چینل بھی وہی کرتے جو ہندوستانی چینلوں نے کیا؟ جواب آپ کو معلوم ہی ہے۔ صدر ٹرمپ سے سب بہت محبت کرتے ہیں ورنہ احمدآباد کے موٹیرا سٹیڈیم میں یوں ہی سوا لاکھ لوگ جمع نہیں ہوجاتے۔
  • واٹس ایپ پر خبروں، کالم و بلاگز کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: