Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطرف پولیس افسر آئی جی سندھ تعینات

وفاق نے مشتاق مہر کو نیا آئی جی تعینات کرنے کی منظوری دی (فوٹو: پی آئی ڈی)
وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے جمعے کی شام اعلان کیا کہ وفاقی کابینہ نے حکومت سندھ کے مطالبے کی روشنی میں گورنر سندھ سے مشاورت کے بعد مشتاق مہر کو صوبے کا نیا انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) تعینات کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
واضح رہے کہ مشتاق مہر اس سے پہلے کراچی کے پولیس چیف رہ چکے ہیں اور انہیں سندھ ہائی کورٹ نے سیاسی پشت پناہی کا الزام ثابت ہونے کی وجہ سے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔
ٹوئٹر پر جاری کردہ بیان میں فردوس عاشق اعوان نے امید ظاہر کی کہ نئے تعینات ہونے والے ’آئی جی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر سندھ میں امن و امان کے قیام اور جرائم کی بیخ کنی کو یقینی بنائیں گے۔‘

 

گذشتہ ماہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام کی تبدیلی کی درخواست کی تھی، اس حوالے سے صوبائی حکومت کی جانب سے وفاقی حکومت کو پانچ افسران کے نام بھجوائے گئے تھے جس میں مشتاق مہر کا نام سرفہرست تھا۔
 ڈاکٹر کلیم امام اور صوبائی حکومت کے درمیان اختلافات کی خبریں کافی عرصے سے گردش میں تھیں اور صوبائی حکومت انہیں تبدیل کروانے کے لیے کوشاں تھی۔
اپنے تازہ ترین اقدام میں ڈاکٹر کلیم امام نے عمرکوٹ کے ایس پی پر ضمنی الیکشن میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو خط لکھا کہ پی ایس 52 میں ضمنی الیکشن سے قبل ایس پی عمرکوٹ کو تبدیل کیا جائے کیونکہ وہ انتخابی عمل میں مداخلت کر رہے ہیں۔
جواباً پیپلز پارٹی نے ڈاکٹر کلیم امام پر اختیارات سے تجاوز کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف انکوائری کی درخواست دے دی تھی۔ پی ایس 52 عمرکوٹ کی نشست پر ضمنی الیکشن کے لیے پولنگ 17مارچ کو ہو گی، یہ نشست پیپلز پارٹی کے رہنما علی مردان شاہ کے انتقال کے باعث خالی ہوئی تھی۔
ڈاکٹر کلیم امام کو عہدے سے تبدیل کر کے موٹروے پولیس کا سربراہ متعین کردیا گیا ہے۔
پولیس سروس آف پاکستان میں کمیشن پانے والے مشتاق مہر اس سے پہلے بطور ایڈیشنل آئی جی تین سال تک کراچی پولیس کے سربراہ رہ چکے ہیں۔
 جب اگست 2018 میں انہیں سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر عہدے سے برطرف کیا گیا تو ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سندھ کی بااثر سیاسی شخصیات کی ایما پر منی لانڈرنگ کیس کے گواہان کو پولیس گردی کے ذریعے وعدہ معاف گواہ بننے سے روکنے کے لیئے دباؤ ڈالا تھا۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے وزیراعظم سے آئی جی کو تبدیلی کرنے کی درخواست کی تھی (فوٹو: سندھ پولیس)

جب عدالت نے ایڈیشنل آئی جی آفتاب پٹھان سے اس معاملے کی تحقیقات کروائیں تو سامنے آیا کہ گلشنِ اقبال اور گلستان جوہر میں تعینات ایس پیز نے مشتاق مہر کے کہنے پر طاقت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے منی لانڈرنگ کیس کے گواہان کے گھروں پر چھاپے مارے اور انہیں ڈرایا دھمکایا تھا۔
اس وقت مشتاق مہر (بی پی ایس 22) ریلوے پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داری نبھا رہے ہیں جہاں انہیں نومبر 2019 میں تعینات کیا گیا تھا۔ بطور کراچی پولیس چیف تعیناتی کے دوران بھی مشتاق مہر کو پانچ ہفتے کے لیے عہدے سے ہٹایا گیا تھا کیونکہ ان کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کے الزامات سامنے آرہے تھے، تاہم پانچ ہفتے بعد انہیں دوبارہ عہدے پر بحال کردیا گیا تھا۔
آئی جی سندھ کی تبدیلی کا معاملہ کافی دنوں سے طوالت کا شکار تھا، گذشتہ ماہ وزیر اعلیٰ سندھ کی زیرِ صدارت منعقد ہونے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں ڈاکٹر کلیم امام کی خدمات وفاق کے سپرد کرنے اور نیا آئی جی تعینات کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ اس کے بعد صوبائی وزیرِ اطلاعات سعید غنی نے مجوزہ ناموں کے حوالے سے بتایا تھا جن میں سابق کراچی پولیس چیف مشتاق مہر اورغلام تھیبو سندھ پولیس کے نئے سربراہ بننے کے لیے مضبوط امیدوار تھے۔
سندھ حکومت نے اس حوالے سے قانونی موقف بھی واضح کیا تھا تاہم اس اعلان کے فوراً بعد سندھ میں حزبِ اختلاف تحریک انصاف نے اس اقدام کوغیر قانونی قرار دیتے ہوئے عدالت جانے کا عندیہ دیا۔

عدالت نے کلیم امام کو وفاق کا فیصلہ آنے تک عہدے پر کام کرنے کا حکم دیا (فوٹو: اے پی پی)

بعد ازاں سندھ پولیس کے افسران کی جانب سے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں امتیاز شیخ اور سعید غنی کے خلاف مرتب کردہ رپورٹس میڈیا کے سامنے لائی گئیں جس میں دونوں رہنماؤں اور ان کے گھر والوں کو جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کا مرتکب کہا گیا۔
اس پیش رفت کے بعد صوبائی حکومت اور آئی جی سندھ کے درمیان سرد جنگ کھل کر سامنے آگئی، ایک طرف پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے سندھ پولیس چیف کے خلاف بیانات دیے تو دوسری جانب ڈاکٹر کلیم امام نے پولیس افسران کے پے درپے اجلاس بلا کر انہیں شاباشی دی اور آگے کا لائحہ عمل مرتب کیا۔
دریں اثنا یہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ پہنچ گیا جہاں عدالت نے ڈاکٹر کلیم امام کا تبادلہ روک کر انہیں وفاق کی طرف سے فیصلہ آجانے تک اپنے عہدے پر کام کرنے کا حکم دیا۔ وفاقی حکومت نے معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے اس حوالے سے کوئی واضح جواب نہیں دیا بلکہ سندھ حکومت کو ہی مزید نام دینے کو کہا جس کے جواب میں پانچ سینیئر افسران کے نام وفاق کو بھجوا دیے گئے تھے جن میں سے بالآخر ایک نام کا انتخاب کرلیا گیا۔
کیا آئی جی صرف سندھ میں تبدیل ہوتے ہیں؟
یہ پہلا موقعہ نہیں کہ سندھ کے آئی جی پولیس کی تبدیلی کے معاملے پر اتنا وبال اٹھا ہو، اس سے پچھلے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی تبدیلی اس سے کہیں زیادہ غیر پیشہ وارانہ طریقے سے ہوئی تھی، صوبائی حکومت کی جانب سے انہیں تین بارعہدے سے برطرف کیا گیا تھا، مگر ہر بار عدالت کے حکم پر وہ دوبارہ اپنے عہدے پر بحال کردیے جاتے تھے۔

یہ کہنا سراسر غلط ہوگا کہ صرف پیپلز پارٹی کو صوبے کے آئی جی سے مسئلہ ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

یہاں عموماً یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جس کی پولیس سربراہ سے ان بن رہتی ہے اور وہ اسے زبردستی تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیے شاید یہ بات ٹھیک بھی ہو، مگر یہ کہنا سراسر غلط ہوگا کہ صرف پیپلز پارٹی کو صوبے کے آئی جی سے مسئلہ ہے، کیوں کہ دیگر تینوں صوبوں میں پولیس سربراہان کے تبادلوں کی رفتار سندھ سے کہیں تیز ہے۔
قانون کے مطابق آئی جی کی تعیناتی تین سال کے لیے ہوتی ہے جسے خاص حالات میں وقت سے پہلے بھی عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔
بلوچستان میں 2012 سے لے کر 2018 تک 6 برسوں میں پولیس کے چھ سربراہ تبدیل کیے گئے۔
پنجاب میں صورت حال مزید دلچسپ ہے جہاں گذشتہ چار برسوں میں قریباً ہر سال دو آئی جی تبدیل ہوتے ہیں، خود تحریک انصاف کی حکومت اپنے ڈیڑھ سالہ دور میں اب تک پنجاب میں پانچواں آئی جی لگا چکی ہے۔ تبدیل کیے جانے والے آئی جی پنجاب میں سے ایک ڈاکٹر کلیم امام بھی ہیں جو اس وقت آئی جی سندھ ہیں، اوراب سندھ حکومت انہیں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔
خیبرپختونخوا بھی اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں، وہاں 2017 میں ناصر درانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد اب تک پانچ مرتبہ پولیس کا سربراہ تبدیل ہو چکا ہے.

دیگر صوبوں نے سندھ کے مقابلے میں زیادہ مرتبہ آئی جی پولیس تبدیل کیے ہیں (فوٹو: اے پی پی)

حیران کن طور پر سندھ وہ صوبہ ہے جہاں 2014 سے اب تک چھ برسوں میں صرف چار مرتبہ پولیس سربراہ تبدیل ہوا، جس میں سے ایک امجد جاوید سلیمی تھے جو فقط تین ماہ آئی جی سندھ رہے جس کے بعد تحریک انصاف نے انہیں آئی جی پنجاب تعینات کردیا۔

شیئر: