Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچوں کو نفسیاتی اثرات سے کیسے بچائیں؟

’والدین بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں‘ (فوٹو: سوشل میڈیا)
پاکستان میں کورونا وائرس کے سبب تعلیمی ادارے، تفریحی مقامات اور شاپنگ مالز سمیت دیگر اجتماعات پر پابندی ہے اور ایسے حالات میں ماہرِین نفسیات کے مطابق بچوں میں غیر یقینی کی سی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے۔
 اردو نیوز نے اس حوالے سے ماہرین نفسیات ڈاکٹر نوشابہ انجم اور ڈاکٹر فیصل رشید سے بات کر کے جاننے کی کوشش کی ہے کہ والدین کن باتوں کا خیال رکھ کر اپنے بچوں کو کورونا لاک ڈاؤن کے نفسیاتی اثرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟

 

بچوں کے وقت کو موثر کیسے بنایا جائے؟
بچوں کو گھر میں قید کرنا آسان نہیں ہے۔ کچھ دیر بعد بچے گھر سے باہر جانے کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ ایسے میں گھر پر ہی بچوں کو کیسے مصروف رکھا جائے کہ وہ باہر جانے کی ضد نہ کریں۔ ڈاکڑ نوشابہ انجم نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے والدین کو کچھ تجاویز دی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ والدین بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں، کیونکہ جب والدین بچوں کے ساتھ وقت گزاریں گے تو بچوں میں موجودہ حالات سے لڑنے کا حوصلہ پیدا ہو گا۔
 والدین بچوں کو کتابیں لا کر دیں، تا کہ وہ اپنے فارغ وقت کو مثبت طرح استعمال کر سکیں۔
  والدین بچوں کو تاریخی واقعات کے بارے میں معلومات فراہم کریں، جیسا کے کورونا وائرس سے پہلے ماضی میں اور کون سی وبائیں پھیلی تھیں۔

’بچے گھر بیٹھے مختلف زبانیں سیکھ کر مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔‘ فوٹو: اے ایف پی

  بچوں کو چاہیے کہ وہ اپنے وقت کو ضائع نہ کریں، وہ گھر بیٹھ کر کوئی کورس کر سکتے ہیں، مختلف زبانیں سیکھ کر وہ مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔
اپنی قوتِ مدافعت کو بہتر بنائیں، جس کے لیے وہ ورزش کریں اور اچھی غذا کا استعمال کریں۔ اگر اُن کے گھر کے پاس کوئی پارک ہے، تو وہ احتیاطی تدبیر اپناتے ہوئے واک بھی کر سکتے ہیں۔
والدین بچوں کے ذہن میں یہ سوچ پیدا نہ ہونے دیں کہ وہ قید میں ہیں، کیونکہ یہ سوچ اُن کی شخصیت پر منفی اثر ڈالے گئی۔
ڈاکڑ نوشابہ کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ’کچھ چیزیں آپ کے ہاتھ میں نہیں ہیں، آپ ان چیزوں سے نکل نہیں سکتے، اور یہ کوئی پہلی بیماری نہیں ہے۔ یہ بیماری چین سے پھیلی ہے۔‘

ڈاکڑ فیصل رشید کے مطابق والدین حالات کی سنگینی کو سمجھ نہیں رہے فوٹو: اے ایف پی

اُنھوں نے کہا کہ آئسولیشن کوئی قید نہیں ہے، یہ صرف احتیاط کے لیے کیا گیا اقدام ہے۔
ماہرِ نفسیات ڈاکڑ فیصل رشید کے مطابق والدین حالات کی سنگینی کو سمجھ نہیں رہے اور وہ بچوں کو باہر گھومنے پھرنے کے لیے جانے دے رہے ہیں۔
ڈاکڑ فیصل رشید نے کہا کہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھیں، کیونکہ ایسا نہ ہو کہ بچے باہر سے وائرس لے کر آجائیں، جس کا خمیازہ گھر میں بڑی عمر کے افراد کو بھگتنا پڑ جائے۔
اس کے علاوہ اُنہوں نے کہا کہ بچے بھی اس وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
اپنے آس پاس ہر کسی کو کورونا وائرس سے متعلق باتیں کرتے دیکھ کر اور اس وائرس کے سبب پیدا ہونے والی صورتِ حال نے بچوں کے ذہنوں پر کئی سوالات چھوڑے ہیں جیسا کہ وہ سکول واپس کب جا سکیں گے، اُن کو پارکس، اور دیگر تفریحی مقامات پر جانے کی اجازت کب ہو گی۔ کب وہ اپنی پسند کے کپڑے لینے کے لیے کسی شاپنگ مال جائیں گے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اس صورتحال میں والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھیں (فوٹو: اے ایف پی)

 ڈاکڑ فیصل رشید کا کہنا ہے کہ ایسی صورتِ حال میں والدین کو چاہیے کہ بچوں کو سٹریس نہ ہونے دیں، اور خود بھی اُن کے سامنے کسی بھی ایسی گفتگو سے پرہیز کریں جس سے اُس کے دماغ پر خوف طاری ہو۔
دوسری جانب میٹرک اور دیگر جماعتوں کے امتحانات دینے والے بچے بھی کشمکش کا شکار ہیں کہ باقی رہ جانے والے امتحانات وہ کیسے اور کب دیں گے، پھر اُن کو کالجز اور یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے ایک لمبے عرصے تک کے لیے انتظار کرنا پڑے گا۔ کیونکہ حکومت نے یکم جون سے قبل کسی بھی جماعت کے امتحان لینے سے منع کر دیا ہے۔ جس پر ڈاکڑ فیصل کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتِ حال کا اثر بچوں کے گریڈز پر پڑے گا۔
’بہت سے بچوں نے امتحانات کی تیاری کی ہوئی تھی۔ مگر اب کیونکہ امتحانات کو ملتوی کر دیا گیا ہے تو اس کا براہِ راست اثر بچوں کی پڑھائی پر پڑئے گا۔‘
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: