ہسپانوی شکاری کرسٹین ابیلو نے چترال میں سیزن کا دوسرا کشمیر مارخور شکار کر لیا۔ کرسٹین ابیلو نے یہ شکار چترال کے گہریت گول کنزروینسی میں کیا۔
ڈی ایف او نے بتایا کہ ہسپانوی شکاری نے گہریت گول پہنچنے کے پانچ منٹ کے اندر ہی 160 میٹر کے فاصلے سے کشمیر مارخور کا شکار کیا۔ اس سے آپ اس کنزروینسی میں مارخور کی آبادی کا اندازہ کرسکتے ہیں۔
ہسپانوی شکاری نے شکار کا پرمٹ ’فیصل ایاز عارف‘ نامی کمپنی کے ذریعے کھلی بولی میں حصہ لے کر حاصل کیا تھا۔
ڈی ایف او وائلڈ لائف فاروق نبی کے مطابق کرسٹین ابیلو نے شکار کا پرمٹ گذشتہ سال اکتوبر میں اوپن آکشن میں ایک لاکھ 91 ہزار ڈالر میں جیتا تھا، تاہم ٹیکس ملا کر یہ پرمٹ شکاری کو دو لاکھ 20 ہزار ڈالر کا پڑ گیا تھا۔
مزید پڑھیں
-
کوئٹہ: ’سلیمان‘ مارخور کا شکار، پولیس اہلکار سمیت 3 شکاری گرفتارNode ID: 883820
فاروق نبی نے بتایا کہ ٹرافی کا سائز 41.5 انچ ہے اور شکار کیے گئے مارخور کی عمر ساڑھے نو سال تھی۔
خیال رہے کہ گذشتہ سال 8 دسمبر کو امریکی شکاری رانالڈ جوئے وہنٹن نے چترال میں واقع تھوشی شاشہ کمیونٹی منیجڈ گیم ریزرو میں کشمیر مارخور کا رواں سیزن کا پہلا شکار کر لیا تھا۔
رانالڈ جوئے وہنٹن نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑی بولی لگا کر کشمیر مارخور کے شکار کا پرمٹ حاصل کیا تھا۔
امریکی شکاری نے اس شکار کے لیے پرمٹ رواں برس اکتوبر میں کھلی بولی میں ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی رقم یعنی دو لاکھ 71 ہزار ڈالر (ساڑھے سات کروڑ سے زائد روپے) ادا کر کے حاصل کیا تھا۔
فاروق نبی نے بتایا کہ ہسپانوی شکاری نے چترال میں واقع کمیونٹی منیجیڈ گیمز ریزرو گہریت گول میں وائلڈ لائف کے حکام کی زیرنگرانی یہ شکار کیا۔
خیال رہے کہ رواں برس اکتوبر میں محکمہ جنگلی حیات خیبر پختونخوا نے صوبے کو الاٹ کیے گئے مارخور کے شکار کے چار پرمٹس نیلام کیے تھے۔
اس نیلامی میں چترال کے تھوشی ون کنزرونسی اور تھوشی ٹو کنزرونسی کے دونوں پرمٹ ریکارڈ دو لاکھ 71 ہزار فی پرمٹ کے حساب سے فروخت ہوئے تھے۔
کوہستان کے علاقے کیگا کی کنزرونسی میں مارخور کے شکار کا ایک پرمٹ ایک لاکھ 81 ہزار ڈالر سے زائد میں فروخت ہوا تھا۔
گہریت گول چترال کی کمیونٹی منیجیڈ گیم ریزرو میں مارخور کے شکار کا واحد پرمٹ ایک لاکھ 90 ہزار ڈالر میں فروخت ہوا تھا۔
محکمہ وائلڈ لائف حکام کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کی آمدنی کا 80 فیصد حصہ متعلقہ علاقوں کے رہائشیوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جبکہ کمیونٹی ڈویلپمنٹ اور جنگلی حیات کے تحفظ کی سرگرمیوں کے لیے بھی رقم دی جاتی ہے۔
پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ کا آغاز
پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ کی شروعات 1999 سے ہوئی۔ 1997 میں کنونشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ اِن انڈینجرڈ سپیشیز سے متعلق زمبابوے میں ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کو مارخور کے غیرقانونی شکار کو روکنے کے لیے ہنٹنگ ٹرافی دینے کی اجازت دی گئی۔
ابتدا میں پاکستان کو سال میں چھ ٹرافیوں کی اجازت دی گئی جسے بعد میں بڑھا کر 12 کر دیا گیا۔
فاروق نبی نے بتایا کہ ٹرافی ہنٹنگ اور کمیونٹی منیجڈ کنزرویشن کی بدولت چترال میں کشمیر مارخور کی تعداد جو 1999 میں چند سو تھی اب ہزاروں تک پہنچ گئی ہے۔
پاکستان میں مارخور خيبر پختونخوا کے علاقے چترال، کوہستان، گلگت بلتستان کے ضلع استور پاکستان کے زيرِانتظام کشمير اور صوبہ بلوچستان ميں کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں پائے جاتے ہيں۔
خیال رہے پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ سکیم کے تحت ہر سال مارخور کے شکار کے لیے 12 لائسنسز جاری کیے جاتے ہیں۔
محکمہ جنگلی حیات کے اہلکار شکار کیے گئے مارخور کے سینگوں کی پیمائش کرتے ہیں جسے شکاری کے حوالے کیا جاتا ہے۔ شکاری سینگ کو بطور ٹرافی اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ عموماً شکاریوں کی دلچسپی مارخور کے گوشت میں نہیں ہوتی۔
ٹرافی ہنٹنگ کیوں کی جاتی ہے؟
محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ کی شروعات مارخور کے غیرقانونی شکار کو روکنے اور ان کی نسل کو محفوظ بنانے کے لیے کی گئی تھی۔
بنیادی طور پر ٹرافی ہنٹنگ کا مقصد لوکل کمیونٹی کی جانب سے مارخور کے غیر قانونی شکار کو روکنا ہے۔
پہلے مقامی کمیونٹی مارخور کا غیرقانونی طریقے سے بے دریغ شکار کرتی تھی جس کی بنیادی وجہ غربت اور آگاہی کی کمی تھی۔ تاہم کنزرویشن اور ٹرافی ہنٹنگ کی شروعات کے بعد غیرقانونی شکار میں کمی آئی ہے۔
محکمہ جنگلی حیات کے مطابق ٹرافی کی رقم کا 80 فیصد مقامی کمیونٹی پر خرچ کیا جاتا ہے۔ مقامی تنظیم کے ذریعے یہ رقم صحت، صاف پانی اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
فاروق نبی کا کہنا تھا کہ مارخور کے شکار کی ایک اور وجہ بھے ہے 'مارخور کی جو نسل بوڑھی ہو جاتی ہے تو ان کی بریڈنگ کے نتیجے میں جو جانور پیدا ہوتے ہیں وہ جینیاتی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔ اس لیے وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کی کوشش ہوتی ہے کہ ٹرافی ہنٹ میں بڑی عمر کے جانوروں کا شکار کرایا جائے تاکہ بوڑھے جانور ختم بھی ہوں اور ان کے بدلے میں مقامی کمیونٹی کو سہولیات کی فراہمی کے لیے رقم بھی میسر ہو۔‘
انہوں نے بتایا کہ چونکہ ٹرافی ہنٹنگ کی نیلامی ڈالروں میں ہوتی ہے تو یہ ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ کمانے کا سبب بھی بنتا ہے۔