دنیا بھر کی جدید ترین جامعات میں کورونا وائرس پر تحقیقات کی جارہی ہیں اور امریکہ کی جونز ہاپکنز یونیورسٹی سے لے کر چین کے ووہان انسٹیٹیوٹ آف وائرولوجی تک دنیا کے بہترین دماغ اس وائرس کے توڑ کے لیے سر جوڑے بیٹھے ہیں۔
نہ صرف کووڈ 19 (کورونا) کا جینوم ڈی کوڈ کیا جا چکا ہے بلکہ ابتدائی ویکسین کے لیب تجربات بھی ہو رہے ہیں لیکن حتمی نتیجہ ابھی تک حاصل نہیں ہو سکا۔ ایسے میں دنیا پہلے حل کے طور پر لاک ڈاؤن اور سماجی دوری کے جیسے اقدامات کر چکی ہے۔
مزید پڑھیں
-
کورونا کی تشخیص کے لیے کتوں کی تربیتNode ID: 467496
-
لاک ڈاؤن: خود کوبوریت سے کیسے بچائیںNode ID: 468536
-
مریضوں کی آئسولیشن کے لیے ریلوے کی ’قرنطینہ ٹرین‘Node ID: 468556
ان حالات میں دنیا میں ایک ایسے نظریے پر بھی بات ہو رہی ہے جو ان ابتدائی اقدامات سے بالکل ہٹ کر ہے۔ اور یہ نظریہ ہے ہرڈ امیونٹی یا اجتماعی قوت مدافعت کا نظریہ۔ یعنی انسانوں کو گھروں میں بند ہونے کی بجائے وائرس کا مقابلہ کھلے عام کرنا چاہیے، اجتماعی قوت مدافعت کے نتیجے میں بالآخر یہ وائرس اپنی طاقت کھو دے گا۔ برطانیہ اور ہالینڈ نے غیر اعلانیہ طور پر اس نظریے کو اپنایا لیکن اب انہیں بھی بالآخر مکمل لاک ڈاؤن کی طرف جانا پڑا ہے۔ پہلے ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اجتماعی قوت مدافعت کا نظریہ بنیادی طور پر ہے کیا۔
اجتماعی قوت مدافعت کیا ہے؟
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں شعبہ قوت مدافعت (امیونالوجی) کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ندیم افضل کے مطابق اجتماعی قوت مدافعت انسانوں کی وہ قوت مدافعت ہے جو وہ ایک ارتقائی عمل کے ذریعے کسی بڑے پیمانے پر پھیلنے والی بیماری کے مقابلے میں خود بخود حاصل کر لیتے ہیں۔
’دوسرے لفظوں میں جتنے زیادہ لوگ اس بیماری سے متاثر ہوں گے اتنے ہی قدرتی طور پر ان کے اندر اس بیماری کے خلاف مدافعت پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اگر ایسا ہو جائے تو بالآخر وہ بیماری انسانوں پر اپنا اثر کھو دیتی ہے۔‘

پاکستان میں وبائی امراض (ایپیڈیمالوجی ) کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر کامران خالد کا کہنا ہے کہ ’اجتماعی قوت مدافعت ایسی صورت حال کو کہتے ہیں جب آبادی کے 60 فیصد سے زائد افراد کو ایک ہی بیماری کا سامنا ہو تو ایسی صورت میں خود کار طریقے سے ان کے اندر اس بیماری کے خلاف مدافعت پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ ایک انتہائی پیچیدہ عمل بھی ہے۔‘
دوسرے لفظوں میں جب آبادی کا بڑا حصہ ایک جراثیم کے خلاف مدافعت حاصل کر لیتا ہے تو اس جراثیم کا آگے منتقل ہونا رک جاتا ہے اور اس وجہ سے اس آبادی میں کم مدافعت والے افراد تک بھی اس کی پہنچ رک جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اسے ہرڈ (ریوڑ) امیونٹی یا اجتماعی قوت مدافعت کہتے ہیں۔
حالیہ انسانی تاریخ میں 2015 میں ذکا وائرس (ایک خاص طرح کے مچھر سے پیدا ہونے والا وائرس) کے خلاف لوگوں نے اجتماعی قوت مدافعت حاصل کی۔ اس بات کا پتا اس وقت چلا جب 2017 میں برازیل کے علاقے سلواڈور کی آبادی کے خون کے نمونے لیے گئے اور 63 فی صد آبادی اس وائرس سے متاثرہ پائی گئی۔ لیکن وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہونے کی وجہ سے وائرس کا اثر تقریبا زائل ہو چکا ہے۔
ویکسین بھی ایک بڑا ذریعہ ہے جس سے اجتماعی قوت مدافعت میں مدد ملتی ہے۔ چیچک کے خلاف ویکسین نے ہی بڑھے پیمانے پر انسانوں میں اجتماعی قوت مدافعت پیدا کی اور اب پولیو کے خلاف بھی انسان یہ مقام حاصل کرنے کے قریب ہے۔

برطانوی میڈیا کے مطابق حکومت برطانیہ کے چیف سائنس ایڈوائز پیٹرک ویلنس نے بیان دیا تھا کہ ’ایک خاص طرح کی اجتماعی قوت مدافعت کی ضرورت ہے تاکہ بیماری کے خلاف لوگوں کی قوت مدافعت بڑھے اور اس کا پھیلاؤ رکے۔‘
اسی طرح ہالینڈ کے وزیراعظم مارک رتے نے بھی گزشتہ دنوں اس سے ملتا جلتا بیان دیا تھا کہ ’ہم وائرس کا پھیلاؤ ایک خاص ماحول میں گروپ امیونٹی پیدا کر کے روک سکتے ہیں۔‘
برطانوی حکومت پر تنقید کے بعد سیکرٹری صحت میٹ ہینکاک کو یہ بیان جاری کرنا پڑا کہ اجتماعی قوت مدافعت حاصل کرنا ایک سائنسی فلسفہ ہے یہ حکومت برطانیہ کی کورونا کے خلاف پالیسی نہیں ہے۔
یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں شعبہ قوت مدافعت کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ندیم افضل کا کہنا ہے کہ ’کورونا کی بیماری جس سطح پر ہے اور جتنی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے اور خاص طور پر جس بڑے پیمانے پر دنیا میں یہ بڑی عمر کے لوگوں کو متاثر کر رہی ہے، لوگوں کو اس سے متاثر ہونے دینا ایک بے وقوفی ہوگی۔ کبھی بھی اس سطح پر آپ اجتماعی قوت مدافعت کی بات نہیں کر سکتے جب اموات کی شرح اس قدر زیادہ ہو اور زیادہ تر متاثرہ افراد کو مصنوعی سانس دینے کی نوبت آتی ہو۔‘
وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے صحت کے نظام میں اتنی سکت نہیں کہ وہ کورونا کے متاثرین کو سنبھال سکے، اجتماعی قوت مدافعت کی بات تو بہت بعد میں آئے گی۔
