اخبار24 کے مطابق ریاض میں جمعے کو پریس کانفرنس کے دورن وزارت صحت کے ترجمان سے پو چھا گیا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ دو بڑے شہروں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں مکمل کرفیو لگا دیا گیا اور دوسرے دو بڑے شہروں ریاض اور جدہ میں تین بجے سہ پہر سے صبح چھ بجے تک کرفیو پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔
ترجمان نے یہ بات تسلیم کی کہ ریاض میں کورونا کے متاثرین کی تعداد مکہ مکرمہ سے زیاد ہے جبکہ جدہ میں کورونا کے متاثرین تعداد بھی مدینہ منورہ سے کہیں زیادہ ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ کرفیو کے سلسلے میں مقررہ معیار مختلف ہیں۔ ممکن ہے کہ ایک چھو ٹے قریے میں سو افراد کورونا سے متاثر ہوں اور کسی دوسرے جگہ کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد اس سے زیادہ ہواور وہ رقبے کے لحاظ سے بڑا ہو۔
وزارت صحت کے ترجمان نے مزید کہا کہ صورتحال اس وقت بھی تبدیل ہوجاتی ہے جب کسی ایک جگہ کورونا وائرس سے ایک دن میں زیادہ افراد متاثر ہو رہے ہوں اور دودسرے مقام پر متاثرین کی تعداد زیادہ ہو لیکن ایک ہفتے یا دو ہفتے کے اندر زیادہ افراد متاثر ہوئے ہوں۔
ترجمان کے مطابق اس حوالے سے کئی اور بھی پہلو ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ آیا کورونا کے متاثرین کا تعلق بیرون مملکت سے آنے والوں سے ہےیا متاثرین پہلے سےاس مر ض میں مبتلا افراد سےملنےجلنے کی وجہ سے وائرس کا شکار ہوئے ہیں۔
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ متاثرین کسی الگ تھلگ جگہ رہ رہے تھے یا قر نطینہ میں تھے۔ ان تمام امور کو مجموعی طور ہر دیکھنے کے بعد ہی جزوی یا مکمل کرفیو کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔