بعض لوگ چینی شہر ووہان کے میئر پر تنقید کررہے ہیں- مثلا کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر ووہان کے میئر 31 دسمبر 2019 سے 17 جنوری 2020 کے دوران خطرے کی گھنٹی بجا کر لوگوں کو مہلک وائرس سے آگاہ کردیتے- شہر میں ایمرجنسی لگا دیتے- تقریبات پر پابندی لگا دیتے تو مہلک وائرس آندھی اور طوفان کی طرح دنیا بھر میں وبا بن کر نہ پھیل پاتا-
ووہان کے میئر پر یہ الزام میڈیا میں بار بار دہرایا گیا- میرا خیال ہے کہ ووہان کے میئر کو معذور کہا جاسکتا ہے۔ممکن ہے کہ وہ تمام تر معلومات کے باوجود کورونا کے خطرات سے اس قدر واقف نہ ہوں جس سے آج ہم لوگ واقف ہیں-
مزید پڑھیں
-
کرونا: احتیاطی تدابیر کب تک جاری رہیں گی؟
Node ID: 466156 -
طبی عملے کے لباس سے کورونا کی منتقلی ممکن ہے؟
Node ID: 470496 -
’کورونا ‘ ایک لاکھ سے زائد لیبارٹری ٹیسٹ
Node ID: 470806
بروقت اقدام نہ کرنے کا ان کا عذر یہ بھی ہے کہ وہ فیصلے اعلی حکام کی منظوری کے بغیر نہیں لے سکتے تھے- اس سے قطع نظراب جبکہ کورونا کی وبا پوری دنیا میں پھیل چکی ہے اوراس پر تین ماہ کا عرْ صہ گزر چکا ہے پھر بھی دنیا بھرکی حکومتیں کورونا وائرس کے آگے بند باندھنے سے لاچار نظر آرہی ہیں- یہ الگ بات ہے کہ باتیں خوب بنائی جارہی ہیں-
کورونا بحران اداروں کا امتحان ہے- کامیابی کے لیے ضروری نہیں کہ ریاست طاقتور یا مالدار ہو یا سمارٹ ای گورنمنٹ ہو بلکہ کامیاب حکومت وہ ہے جو موثر ہو اور اپنے تمام وسائل سے فائدہ اٹھانا جانتی ہو-
اس حوالے سے دو ریاستوں کے نام بطور مثال لیے جاسکتے ہیں- ایک تو سنگا پور ہے یہ چھوٹی سی ریاست ہے دوسرا نام چین کا لیا جاسکتا ہے یہ دونوں ریاستیں فعال ہیں- دونوں اپنی سکیموں کو عملی جامہ پہنا رہی ہیں اور اپنے اہداف حاصل کررہی ہیں- کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ چین جتنے کارناموں کا شور کررہا ہے وہ مبالغہ آمیز لگتے ہیں ممکن ہے سرکاری پروپیگنڈہ ہو تاہم یہ سچ ہے کہ چین نےگزشتہ ڈیڑھ عشرے میں جو کارنامے انجام دیے ہیں انہیں جھٹلانا ممکن نہیں-
چین کی کارکردگی کے اعدادو شمار تعلیم، ٹریننگ اور صنعت کے شعبوں سمیت انتظٓامیہ کے فعال ہونے کاپتہ دے رہے ہیں- اس حوالے سے یہ حققت بھی سامنے رہےکہ ایک ارب 40 کروڑ انسانوں کی زندگیوں کے تمام پہلوؤں کو منظم کرنا دنیا کے کسی بھی ریاستی نظام کے لیے تقریبا ناممکن ہے-
قدرتی آفات بے شک ناگہانی ہوتی ہیں مگر یہ حکومتوں کے لیے غیرمتوقع نہیں ہوتیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت قدرتی آفات سے نمٹنے کے لائق ہے یا نہیں- خطرناک بحرانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جرات مندانہ ٹھوس فیصلے کرسکتی ہے یا نہیں؟۔ کسی بھی فیصلے کو کامیاب بنانے اور کسی بھی قرارداد پر عمل درآمد اس وقت ممکن ہوتا ہے جب ضروری معلومات وافر شکل میں مہیا ہوں-
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہے کہ جب سعودی عرب نے کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے اول وقت میں ٹھوس اقدامات کا اعلان کیا تھا تو دنیا بھر میں ان پر حیرانگی کا اظہار کیاگیا تھا- آنے والے وقت نے ثابت کردیا کہ سعودی عرب نے پروازوں پر پابندی، عمرے پر بندش، متاثرہ علاقوں کو لاک ڈاؤن کرنے کے جو اقدامات کے تھے وہ درست تھے-
ظاہر بات ہے کہ ہر ملک اپنےحالات کو مدنظررکھ کر اقدامات کرتا ہے تاہم عوام کی موت و حیات سے تعلق رکھنے والے امنور کی بابت فیصلے لینا اور انہیں نافذ کرانا بتاتا ہے کہ سرکار کی کارکردگی کیسی ہے-
مزید پڑھیں
-
کورونا دنیا کے لیے ایک امتحانNode ID: 466286