Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کے بروقت اور درست اقدامات

کورونا بحران تمام بحرانوں سے یکسر مختلف ہے(فوٹو سوشل میڈیا)
بعض لوگ چینی شہر ووہان کے میئر پر تنقید کررہے ہیں- مثلا کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر ووہان کے میئر 31 دسمبر 2019 سے 17 جنوری 2020 کے دوران خطرے کی گھنٹی بجا کر لوگوں کو مہلک وائرس سے آگاہ کردیتے- شہر میں ایمرجنسی لگا دیتے- تقریبات پر پابندی لگا دیتے تو مہلک وائرس آندھی اور طوفان کی طرح دنیا بھر میں وبا بن کر نہ پھیل پاتا-
ووہان کے میئر پر یہ الزام میڈیا میں بار بار دہرایا گیا- میرا خیال ہے کہ ووہان کے میئر کو معذور کہا جاسکتا ہے۔ممکن ہے کہ وہ تمام تر معلومات کے باوجود کورونا کے خطرات سے اس قدر واقف نہ ہوں جس سے آج ہم لوگ واقف ہیں-
بروقت اقدام نہ کرنے کا ان کا عذر یہ بھی ہے کہ وہ فیصلے اعلی حکام کی منظوری کے بغیر نہیں لے سکتے تھے- اس سے قطع نظراب جبکہ کورونا کی وبا پوری دنیا میں پھیل چکی ہے اوراس پر تین ماہ کا عرْ صہ گزر چکا ہے پھر بھی دنیا بھرکی حکومتیں کورونا وائرس کے آگے بند باندھنے سے لاچار نظر آرہی ہیں- یہ الگ بات ہے کہ باتیں خوب بنائی جارہی ہیں-
کورونا بحران اداروں کا امتحان ہے- کامیابی کے لیے ضروری نہیں کہ ریاست طاقتور یا مالدار ہو یا سمارٹ ای گورنمنٹ ہو بلکہ کامیاب حکومت وہ ہے جو موثر ہو اور اپنے تمام وسائل سے فائدہ اٹھانا جانتی ہو-
اس حوالے سے دو ریاستوں کے نام بطور مثال لیے  جاسکتے ہیں- ایک تو سنگا پور ہے یہ چھوٹی سی ریاست ہے دوسرا نام چین کا لیا جاسکتا ہے یہ دونوں ریاستیں فعال ہیں- دونوں اپنی سکیموں کو عملی جامہ پہنا رہی ہیں اور اپنے اہداف حاصل کررہی ہیں- کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ چین جتنے کارناموں کا شور کررہا ہے وہ مبالغہ آمیز لگتے ہیں ممکن ہے سرکاری پروپیگنڈہ ہو تاہم یہ سچ ہے کہ چین نےگزشتہ ڈیڑھ عشرے میں جو کارنامے انجام دیے ہیں انہیں جھٹلانا ممکن نہیں-

جنگ کا کوئی ایک محاذ نہیں۔ دشمن نظروں سے اوجھل ہے-(فوٹو سوشل میڈیا)

چین کی کارکردگی کے اعدادو شمار تعلیم، ٹریننگ اور صنعت کے شعبوں سمیت انتظٓامیہ کے فعال ہونے کاپتہ دے رہے ہیں- اس حوالے سے یہ حققت بھی سامنے رہےکہ ایک ارب 40 کروڑ انسانوں کی زندگیوں کے تمام پہلوؤں کو منظم کرنا دنیا کے کسی بھی ریاستی نظام کے لیے تقریبا ناممکن ہے-
قدرتی آفات بے شک ناگہانی ہوتی ہیں مگر یہ حکومتوں کے لیے غیرمتوقع نہیں ہوتیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت قدرتی آفات سے نمٹنے کے لائق ہے یا نہیں- خطرناک بحرانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جرات مندانہ ٹھوس فیصلے کرسکتی ہے یا نہیں؟۔ کسی بھی فیصلے کو کامیاب بنانے اور کسی بھی قرارداد پر عمل درآمد اس وقت ممکن ہوتا ہے جب ضروری معلومات وافر شکل میں مہیا ہوں-
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہے کہ جب سعودی عرب نے کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے اول وقت میں ٹھوس اقدامات کا اعلان کیا تھا تو دنیا بھر میں ان پر حیرانگی کا اظہار کیاگیا تھا- آنے والے وقت نے ثابت کردیا کہ سعودی عرب نے پروازوں پر پابندی، عمرے پر بندش، متاثرہ علاقوں کو لاک ڈاؤن کرنے کے جو اقدامات کے تھے وہ درست تھے-

کورونا بحران اداروں کا امتحان ہے-(فوٹو سوشل میڈیا)

ظاہر بات ہے کہ ہر ملک اپنےحالات کو مدنظررکھ کر اقدامات کرتا ہے تاہم عوام کی موت و حیات سے تعلق رکھنے والے  امنور کی بابت فیصلے لینا اور انہیں نافذ کرانا بتاتا ہے کہ سرکار کی کارکردگی کیسی ہے-
مزید پڑھیں
خطرناک بحران عدالت جیسا کام کرتے ہیں یہ بتاتے ہیں کہ ریاستی ادارے کامیاب ہیں یا ناکام- یہ فیصلہ قدرتی آفات اور تمام ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے سرکار کی ہنگامی اسکیموں کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے-
کورونا بحران تمام بحرانوں سے یکسر مختلف ہے جنگ کا کوئی ایک محاذ نہیں۔ دشمن نظروں سے اوجھل ہے- حکومت پورے ملک میں عوام کی زندگی بچانے کے لیے معمولی ترین تفصیلات کو منظم کرنے پر مجبور ہے- خوراک کی ترسیل سے  لیکر ہسپتالوں میں صحت انتظامات تک ہزروں کو قرنطینہ میں رکھنے سے لے کر شہروں کی سلامتی کو یقینی بنانے تک اور مالی وسائل کے بندوبست سمیت ہر کام کو دیکھنا اور کرنا ہوتا ہے-
میرا خیال ہے کہ یہ بحران ہمیں انتظامی عمدگی،معلومات کی فراہمی اور تجزیے کی اہمیت جتائے گا تاکہ ہر مشکل سے صحیح طریقے سے جلد از جلد اور معمولی لاگت سے نمٹا جاسکے-

شیئر: