Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شادیاں ملتوی ہونے سے فوٹوگرافر بھی متاثر

شادیوں کی تقریبات ملتوی ہونے سے فوٹوگرافرز کا کاروبار بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
کرورنا وائرس کی وجہ سے دنیا میں کروڑوں افراد کے معمولات میں تبدیلی آئی ہے اور وہ گھروں تک محدود ہو گئے ہیں وہیں کچھ ایسے لوگ بھی ہے، جن کو کرورنا وائرس کے دنوں میں بھی شادیوں کے فنکشن کا انتظار رہتا ہے خواہ وہ مختصر اور چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں۔ 
یہ افراد پیشہ ور فوٹوگرافرز ہیں جو اب ہر شادی کا لازمی جزو تصور کیے جاتے ہیں اور ان کے بغیر شادی کا فنکشن نامکمل لگتا ہے چونکہ شادی کی تقریب میں ہر کوئی تیار ہو کر شرکت کرتا ہے تو ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ فوٹوگرافر اپنے کیمرے کی آنکھ میں ان کی تصاویر ہمشیہ کے لیے محفوظ کر لے۔
لاک  ڈاون کی وجہ سے ملک کے بڑے شہروں میں شادیوں کی تقریبات ملتوی ہونے سے فوٹوگرافرز کا کاروبار بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔
اسلام آباد میں رہنے والے محمد معیز گذشتہ چار سال سے فوٹوگرافی کے پیشے سے وابستہ ہیں۔

 

اُنھوں نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے  بتایا کہ لاک ڈاون سے قبل مارچ اور اپریل کے ماہ کے لیے اُن کے پاس 20 سے زائد شادیوں کی بکنگ ہوئی تھی مگر شادیاں ملتوی ہوئیں تو اُن کی بکنگ بھی کینسل  ہو گئی۔
محمد معیز نے بتایا کہ اُن کے گھر میں پانچ افراد ہیں، اور وہ اسی پیشے سے حاصل ہونے والے رقم سے گھر کا خرچ اٹھاتے ہیں۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ابھی اس  بات کا اندازہ بھی نہیں کہ لاک ڈاؤن کب ختم ہوگا، وائرس کب کنٹرول ہوگا اور شادیوں کے فنکشن کب دوبارہ شروع ہوں گے۔
فوٹو گرافر محمد معیز کا کہنا تھا اُن کو ان حالات میں مارکیز اور شادی ہال میں اگلے دو ماہ شادیاں ہوتی نظر نہیں آ رہیں۔
 لاک ڈاون کی وجہ سے شادی ہال بند ہونے سے کئی افراد نے گھر پر ہی شادی کی مختصر تقریبات منعقد کرنے کو غنیمت جانا اور کسی نے سادگی سے نکاح کی تقریب پر ہی شکر کیا۔ مگر شادی کا ایونٹ بڑا ہو یا چھوٹا فوٹوگرافر ہر حال میں موجود ہوتا ہے۔ محمد معیز نے بتایا لاک ڈاون کے بعد ایک ہفتے تک جن کی بکنگ ہوئی تھی اُنھوں نے اُن  کو گھر پر ہی بلاا کر ایونٹ کور کروا لیا تھا مگر گذشتہ پندرہ دنوں سے اُن کو کسی کلائنٹ کی جانب سے کوئی نئی تاریخ نہیں بتائی گئی۔

لاک ڈاؤن کے دوران شادی کی تقریبات ملتوی ہونے سے ہزاروں افراد کے روزگار بند ہو گئے ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

محمد معیز کو امید ہے کہ رمضان کے بعد حالات بہتر ہو جائیں گے اور اُن کو دوبارہ کام ملنا شروع ہو جائے گا۔ اُنھوں نے حکومت سے بھی اپیل کی کہ اُن جیسے کئی افراد حالات بہتر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، مگر اس دوران ان افراد کی کفالت کی ذمہ داری حکومت کو اُٹھانی چاہیے۔
خیال رہے پاکستان میں لاک ڈاون سات اپرئل کو ختم ہونا تھا تاہم وفاقی حکومت نے لاک ڈاون میں 14 اپریل تک کی توسیع کر دی ہے۔
لاک ڈاون سے متاثر ہونے والا صرف یہی ایک شعبہ نہیں بلکہ ہزاروں دیگر افراد بھی اپنے روز گار کے بند ہونے سے پریشان ہیں۔ بیوٹی پالرز ِسے لے کر گھروں میں کام کرنے والے ملازموں تک، سبھی کو یہی ڈر ہے کہ اگر یہ لاک ڈاؤن کچھ دن اور رہا تو شاید اُن کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑے کیونکہ جب کام ہی نہیں ہوگا تو تنخواہیں کہاں سے ملیں گی اور کون دے گا۔ 
واضح رہے کہ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے وزیرِاعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ 14 اپریل سے قبل صوبوں کے ساتھ مل کر لاک ڈاؤن میں آئندہ کا لائحہ عمل تیار کریں گے۔

شیئر: