’ہارٹ اٹیک کا خطرہ کم‘، خون کا عطیہ کن بیماریوں سے بچاتا ہے؟
’ہارٹ اٹیک کا خطرہ کم‘، خون کا عطیہ کن بیماریوں سے بچاتا ہے؟
بدھ 5 مارچ 2025 6:39
رپورٹ کے مطابق دنیا میں صرف تین فیصد افراد سالانہ خون کے عطیات دیتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
اندازہ کیجیے ایسی صورت حال کا جب کسی کو خون کی اشد ضرورت ہو اور وہ مل نہ رہا ہو، کیونکہ دنیا میں ہر وقت کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی کو ایسے حالات درپیش ہوتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ لوگ عطیات دیتے نہیں مگر ایسا ضرور ہے کہ ان کی تعداد ضرورت کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔
خون کا عطیہ دینے سے قبل ضروری باتوں جیسے بلڈ ٹیسٹ، عمر، صحت کے ساتھ ساتھ زیادہ تر لوگوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس کے بعد کیا کرنا ہے، مثلا جوسز پینا، اچھی خوراک لینا، تین ماہ تک مزید عطیہ نہ دینا وغیرہ۔
تاہم زیادہ تر لوگوں کو سنا سنایا یہ جملہ تو یاد ہے کہ ’اس کے صحت پر اچھے اثرات پڑتے ہیں‘ مگر یہ نہیں پتہ اس طرح وہ کن خطرناک بیماریوں کی پہنچ سے دور ہو جاتے ہیں۔
عرب میگزین سیدتی میں شائع ہونے والے مضمون میں ہیوسٹن ہیلتھ کیئر کا حوالہ دیتے ہوئے اس حوالے سے کافی اہم معلومات دی گئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ہر جاتے اور آتے لمحے کے دوران دنیا میں کسی نہ کسی کو خون کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ یہ زندگی کی ڈوری کو بندھے رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
اس کی بدولت جسم کے خلیوں تک غذائی اجزا اور آکسیجن کی رسائی ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس صورت حال کے باوجود بھی خون عطیہ کرنے کے اہل افراد میں صرف تین فیصد ہی سالانہ طور پر عطیات دیتے ہیں۔
خون کا عطیہ دینے سے جہاں انسان کو یہ راحت ملتی ہے کہ وہ کسی کے کام آیا وہیں یہ بھی حقیقت کہ اس سے مریض کی جان بچنے کے امکانات بڑھتے تو ہیں ہی لیکن ساتھ ہی عطیہ دہندہ کو کچھ فوائد حاصل ہوتے ہیں، جن میں مہلک امراض سے بچاؤ بھی شامل ہے۔
تحقیق کے مطابق خون کا عطیہ دینے والوں میں 88 فیصد تک ہارٹ اٹیک کے خطرات کم دیکھے گئے (فوٹو: ہیلتھ ایکسچینج)
ہارٹ اٹیک کے خطرات میں کمی
سال میں کم از کم ایک بار خون کا عطیہ دینے سے بہاؤ میں بہتری آتی ہے اور شریانوں کی بندش کے امکانات میں کمی آتی ہے۔
حالیہ کچھ برسوں کے دوران ہونے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جن لوگوں نے خون عطیہ کیا ان میں ہارٹ اٹیک کے خطرات میں اٹھاسی فیصد کمی دیکھی گئی۔
ایتھروسکلروسیس سے بچاؤ
یہ ایسی حالت کو کہتے ہیں جب کولیسٹرول، چربی اور دوسرے کیمیکلز شریانوں کی دیواروں پر تہہ بنا دیتے ہیں، جس سے وہ تنگ ہو جاتی ہیں اور خون کے بہاؤمیں رکاوٹ پڑتی ہے۔ اسی طرح خون میں آئرن کی زیادہ مقدار بھی شریانوں کو سخت کر سکتی ہے، خون کا عطیہ دینے سے آئرن میں کمی آتی ہے اور ایتھروسکلروسیس کے خطرات بھی کم ہو جاتے ہیں۔
عطیہ دینے سے ایتھروسکلروسیس کے امکانات میں کمی آتی ہے (فوٹو: آئی سٹاک)
بنیادی مسائل کا علم
اکثر لوگ باقاعدگی سے چیک اپ نہیں کرواتے تاہم خون کا عطیہ دینے سے ان کا مختصر جسمانی معائنہ بھی ہو جاتا ہے کیونکہ خون لینے سے قبل یہ ضروری ہوتا ہے۔ اس سے عطیہ دہندہ کو اپنےبلڈ گروپ کے بارے میں علم ہو جاتا ہے وہیں اس کی مختصر سی میڈیکل ہسٹری بھی وجود میں آ جاتی ہے۔
اس میں بلڈ پریشر، نبض کی رفتار، جسم کا درجہ حرارت، کولیسٹرول ٹیسٹ اور ہیموگلوبن کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ آئرن لیول بھی چیک ہو جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سال میں کم از کم ایک بار عطیہ دینے سے خون کے بہاؤ میں بہتری آتی ہے (فوٹو: عرب نیوز)
اس سکریننگ سے انسان کی صحت کے متعلق مسائل کا پتہ چلانے میں بھی مدد ملتی ہے، اسی طرح اسی مختصر معائنے میں اریتھمیا کا پتہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔
اس دوران اگر کوئی ایسی علامات بھی سامنے آتی ہیں جو کسی خطرے کی طرف اشارہ کرتی ہیں تو اس پر ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے، جس سے مرض کا بروقت پتہ لگ جاتا ہے اور علاج میں آسانی رہتی ہے۔
عطیہ دینے سے قبل ہونے والے ٹیسٹس سے ممکنہ طبی مسائل کی نشاندہی بھی ہو جاتی ہے (فوٹو: شٹر سٹاک)
کینسر کی روک تھام
ماہرین کے مطابق خون میں آئرن کا زیادہ ہونا صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ عطیہ دے کر اس ذخیرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق آئرن کا تعلق کینسر پیدا کرنے والے فری ریڈیکلز سے ہوتا ہے۔ اس لیے خون عطیہ کرنے سے چونکہ آئرن میں کمی آتی ہے اس لیے کینسر کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہیں۔
عطیہ دینے سے قبل کیا کرنا ضروری ہے
اگر کوئی خون کا عطیہ دینا چاہتا ہے تو ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ وہ زیادہ مقدار میں پانی پیے کیونکہ اس سے جسم ہائیڈریٹ ہوتا ہے اور رگوں کو تلاش کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ اسی طرح صحت مند خوراک لینے میں بھی سستی نہیں کرنی چاہیے۔
ورزش کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر کوئی خون کا عطیہ دینے جا رہا ہے تو اس سے قبل ورزش کر سکتا ہے تاہم عطیہ دینے کے بعد پرہیز کرنا چاہیے۔