Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میمز کا مواد فراہم کرنے کا بہت بہت شکریہ‘

عمر اکمل بیٹنگ کے ساتھ وکٹ کیپنھ کی ذمہ داری بھی ادا کرتے رہے ہیں (فوٹو سوشل میڈیا)
پاکستانی کرکٹر عمر اکمل کو اینٹی کرپشن قواعد کی خلاف ورزی کے باعث تین سال کے لیے کرکٹ کھیلنے کی پابندی کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود سوشل میڈیا ٹائم لائنز پر ان کے چرچے جاری ہیں۔
سوشل میڈیا صارفین پابندی، اس کی وجوہات اور غلطیوں کے تذکرے سے زیادہ عمر اکمل کی سرگرمیوں، باالخصوص ان کی انگریزی میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
گزشتہ روز پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ عمر اکمل پراینٹی کرپشن قواعد کی خلاف ورزی سے متعلق معاملے کی سماعت کرنے والے ٹریبونل نے تین سال کی پابندی عائد کی ہے، اس دوران وہ کسی بھی قسم کی کرکٹ نہیں کھیل سکیں گے۔ اعلان سامنے آتے ہی یہ اطلاع پاکستان سے باہر نکل کر کرکٹ کے عالمی پلیٹ فارمز کی نمایاں خبر بنی رہی۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر معاملے کا ذکر شروع ہوا تو عمر اکمل کی انگریزی کے رنگ سب سے غالب رہے۔ مختلف صارفین نے مزاحیہ انداز اپناتے ہوئے کئی جملے کرکٹر سے منسوب کیے لیکن یہ کام اس طرح کیا گیا کہ سر پاؤں سے اور دھڑ سر پر سجا دیا۔
ایمان خان نے اپنی ٹویٹ میں پی سی بی کے اعلان کو عمر اکمل سے منسوب انگریزی کی چھننی سے گزارا تو اعلان کچھ یوں ہو گیا۔
 

نائلہ عنایت بھی عمر اکمل سے منسوب کی جانے والی انگریزی کے ساتھ سامنے آئیں تو انہوں نے پی سی بی کو کرکٹر کی جانب سے دیے جانے والے فرضی پیغام کا متن کچھ یوں لکھا۔
 

خود کو میم کا بادشاہ کہلانے والے ٹوئٹر صارف نے عمر اکمل کو لارڈ قرار دیتے ہوئے ان کا مبینہ قول نقل کیا جو ایک مشہور انگریزی قول کی بگاڑی گئی شکل تھی۔
 

کچھ صارفین گزشتہ روز اپنی ذمہ داری سے سبکدوش کی جانے والی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کی کرکٹ کھیلتے ہوئے ایک تصویر بھی عمر اکمل کی تصویر کے ساتھ ملا کر سامنے لائے اور لکھا ’دونوں لیجنڈز کلین بولڈ ہو گئے۔ لیکن ہمیں میمز کا مواد فراہم کرنے پر آپ دونوں کا بہت بہت شکریہ۔‘
 

نوشاد سیز نامی ہینڈل نے خبر پر تبصرے کے لیے بالی وڈ اداکار اکشے کمار کی ایک تصویر کا سہارا لیا اور ساتھ ہی اس تاثر کو ’انگلش اور ششی تھرور کے چاہنے والوں‘ سے منسوب کر دیا۔
 

ایسے کرکٹ شائق بھی گفتگو کا حصہ بنے جنہوں نے عمر اکمل کے متعلق فیصلے کو جنوبی ایشیا کے مفرد ٹیلنٹ کے خاتمے سے تعبیر کیا۔
 

ارفا فیروز ذکا نامی صارف نے عمر اکمل کی جانب سے معاملے کو صحیح طریقے سے ہینڈل نہ کرنے کو سزا کی وجہ قرار دیا۔ انہوں نے لکھا ’بجائے کسی وکیل کی خدمات لینے کے عمر اکمل خود ہی اپنے وکیل بنے۔ غلطی ماننے اور معاملہ نمٹانے کے بجائے جواز جوئی کرتے رہے کہ انہوں نے اطلاع کیوں نہیں دی۔ ناقابل فہم جواز پیش کرکے پینل کو زچ کر دیا۔‘
 

کرکٹ مبصر اور سابق پاکستانی کرکٹر رمیز راجا نے معاملے پر تبصرہ کیا تو وہ انتہائی غصے میں محسوس ہوئے۔ انہوں نے لکھا کہ ’تین سالہ پابندی کے ساتھ بالآخر عمر اکمل بھی احمقوں کے کلب میں شامل ہو گئے۔ صلاحیتوں کا کیا ہی زیاں ہے، یہ وقت ہے کہ پاکستان کو میچ فکسنگ کے خلاف قانون سازی کر کے ایسے لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے بھیجنا چاہیے۔‘

صارفین اپنی گفتگو کے دوران عمر اکمل کے کرکٹ کیریئر میں ان سے منسوب ناخوشگوار واقعات کا تذکرہ بھی کرتے رہے، حتی کہ ایسے مواقع کی فہرست تک بنا ڈالی۔
 

29 سالہ عمر اکمل نے اگست 2009 میں ون ڈے ڈیبیو کیا تھا جب کہ نومبر 2009 میں قومی ٹیسٹ ٹیم کا حصہ بنے تھے، اسی سال ان کا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کیریئر بھی شروع ہوا۔ انہوں نے اپنا آخری ایک روزہ میچ آسٹریلیا کے خلاف مارچ 2019 میں کھیلا تھا۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: