Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا کا رونا اور ’افطار پارٹیوں‘ کا قحط

افطار میں بھرپور شرکت کے لیے ہم نے اہتمام سے بغیر سحری کا روزہ رکھا (فوٹو: سوشل میڈیا)
رمضان میں کورونا کا ایک رونا یہ بھی ہے کہ افطار پارٹیاں ناپید اور افطار  ڈنرخواب و خیال ہو گئے ہیں۔ اس ’قحط الافطار‘ میں جب شکم نے شکوہ کیا کہ:
 
’ستم تو یہ ہے کہ اب چاٹ نہ پکوڑے ہیں‘ 
اسی لمحے دل سے سدا آئی:
’اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں‘
شاید قبولیت کی گھڑی تھی، تھوڑی دیر بعد ہی دعوتِ افطار کا میسج آ گیا۔ افطار میں بھرپور شرکت کے لیے ہم نے اہتمام سے بغیر سحری کا روزہ رکھا۔ پھر آتش شکم کو مزید بھڑکانے کے لیے جائے افطار تک چھ کلومیٹر کا سفر پیدل طے کیا، نتیجتاً افطار میں ’لُٹ مچا دی۔‘
بھرپور افطاری اور شاندار عَشائیے کے بعد گرین ٹی کا دور چلا تو صحافی وقار بھٹی بولے : لاک ڈاؤن کے بعد دنیا کیسی ہوگی؟ یہ سوال دنیا کے لیے اہم اور ہمارے لیے غیر ضروری ہے۔ ہم نے اس وبا سے کوئی سبق نہیں سیکھا، یقین نہ آئے تو ایک بڑے اخبار کی خبر ملاحظہ کریں:
’کراچی میں لاک ڈاؤن کے باوجود غیر قانونی مذبحہ خانے میں کام جاری‘
’ان غیر قانونی سرگرمیوں پر تو شاید قابو پالیا جائے گا مگر اخبار کی اس سرخی میں موجود غلطیوں کا مدوا کون کرے گا؟'  ڈاکٹر صاحب نے لقمہ دیا 
سرخی میں کیا مسئلہ ہے؟ ۔۔۔ علی بھائی پرفیوم والا نے چونک کر پوچھا۔

شاید قبولیت کی گھڑی تھی، تھوڑی دیر بعد ہی دعوتِ افطار کا میسج آگیا (فوٹو:سوشل میڈیا)

پہلی غلطی تو یہی ہے کہ ’مَذبَح‘ کو ’مذبحہ‘ لکھا گیا۔ دوسری یہ کہ ’مَذبَح‘ اپنی جگہ ایک مکمل لفظ ہے۔ اس کے معنی اُس مقام یا مکان کے ہیں جہاں جانور’ذبح‘ کیا جائے، ایسے میں ’مَذبَح‘ کے ساتھ ’خانہ‘ کا اضافہ نادرست ہے۔
اگر’خانہ‘ لگانے کا دل چاہے تو کیا کریں؟ ۔۔۔ شیخ صاحب نے تفریحاً پوچھا۔ 
ایسے میں’ ذبح خانہ‘ لکھ کر شوق پورا کیا جاسکتا ہے۔ اتنا کہہ کر ڈاکٹر صاحب نے پیالی میں موجود باقی گرین ٹی ختم کی اور سلسلہ کلام آگے بڑھایا:
'اگر بات مشکل نہ لگے تو عرض ہے کہ عربی زبان کے قواعد کی رو سے ’مَفعَل اور مَفعِل‘ ان دو ابواب کے وزن پر آنے والے الفاظ ’اسم ظرف مکان‘ کہلاتے ہیں۔ یعنی اُس جگہ کی نشاندہی کرتے ہیں جہاں وہ کام انجام دیا گیا ہو۔ 
مثلاً؟  پرفیوم والا نے پوچھا
مثلاً ’باب مَفعَل‘ کے وزن میں مَذبَح (ذبح خانہ)، مَقتَل (قتل گاہ) ، مَشہَد (شھادت گاہ)، مَسکَن (رہائش گاہ)، مَعبَد (عبادت گاہ) اور مَطبَخ (باورچی خانہ) وغیرہ شامل ہیں۔
جب کہ ’باب مَفعِل‘ کے وزن میں مَسجد، مَولِد (ولادت گاہ) اورمنزِل وغیرہ داخل ہیں۔ یہ تمام الفاظ ’اسم مکان‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔  
چونکہ بات سنجیدہ ہوچلی تھی اس لیے ہم نے منزل کی رعایت سے احمد فراز کا خوبصورت شعر سنا کر فضا کو نارمل کر دیا:
ایک دیوانہ یہ کہتے ہوئے ہنستا جاتا
کاش منزل سے بھی آگے کوئی رستا جاتا
ڈاکٹر صاحب نے شعر کی داد دی اور بولے لفظ ’منزل‘ کا بنیادی لفظ ’نزل‘ ہے۔ اس لفظ سے بننے والوں زیادہ تر الفاظ میں اوپر سے نیچے  آنے یا اترنے کا مشترک مفہوم پایا جاتا ہے۔
مثلاً: اس بار وقار بھٹی نے مثال طلب کی۔

گھروں اور ’نیم پلیٹ‘ پر آج کل ’پیلس‘ اور ’وِلا‘ لکھنے کا رواج  ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

مثلاً خود منزل کے ایک معنی ’اترنے‘ کے ہیں، طویل مسافت کے بعد سوار جس جگہ اترتا ہے اسے ’منزل‘ کہتے ہیں۔ اسی لیے عربی میں مسافر خانے کو ’منزل المسافرین‘ کہاجاتا ہے۔
پھراس منزل کی رعایت سے مکان اور رہائش کے معنی پیدا ہوگئے۔ گھروں اور ’نیم پلیٹ‘ پر آج کل ’پیلس‘ اور ’وِلا‘ لکھنے کا رواج ہے، مگر چند دھائی قبل ’منزل‘ اور ’کاشانہ‘ وغیرہ لکھا جاتا تھا۔ کراچی میں ایم اے جناح روڈ پر ’سعید منزل‘ آج بھی ایک معروف مقام ہے۔
لفظ ’نزول‘ اور ’نازل‘ بھی ’اترنے‘ کا مفہوم لیے ہوئے ہیں۔ 
اسی کے ساتھ ایک لفظ ’تنزیل‘ ہے جس کے معنی ’تھوڑا تھوڑا اترنے‘ کے ہیں۔ ’نزل‘ سے لفظ ’نزلہ‘ بھی ہے۔ غور کرو ’نزلہ‘ کی صورت میں رطوبت سر سے ناک اور حلق کی طرف آتی ہے۔ 
پھر لفظ ’تنزل‘ اور ’تنزلی‘ بھی ہے جو اترنے کے ساتھ ساتھ پستی، زوال اور انحطاط کا مفہوم لیے ہوئے ہے۔ دیکھو شاعر ’ماجد دیوبندی‘ کیا کہہ رہے ہیں:
پیش خیمہ ہیں ’تنزل‘ کا تکبراورغرور
مرتبہ چاہو تو پہلے انکساری سیکھ لو
ڈاکٹر صاحب گھڑی بھر دَم لینے کو رُکے تو’وقاربھٹی‘ نے فرمائش کردی کہ کچھ بات لفظ ’ریکھا‘ اور’لکیر‘ پر ہو جائے کہ ان الفاظ کی حقیقت کیا ہے۔‘

لکھنے کی رعایت سے ’خط‘ کے ساتھ ’خطوط‘، خطاط ، خطاطی اور مخطوطہ جیسے بہت سے لفظ وابستہ ہوگئے (فوٹو:سوشل میڈیا)

ڈاکٹر صاحب بولے: ہمارے محدود مطالعے کے مطابق لفظ ’ریکھا‘ اور ’لکیر‘ دونوں کی اصل ’سنسکرت‘ سے متعلق ہے۔ اور قریب قریب یہ دونوں لفظ ہم معنی بھی ہیں۔ اردو میں ’ریکھا‘ کا لفظ ’ہاتھ  کی ریکھاؤں‘ تک محدود ہوگیا ہے۔ راولپنڈی کے حسن عباس رضا کا کہنا ہے:
نہیں اب سوچنا کیا ہو چکا، کیا ہوگا آگے
بس اب تو ہاتھ کی ریکھا کا لکھا دیکھنا ہے
جہاں تک بات ہے ’لکیر‘ کی تو سنسکرت میں اس کی اصل لیک یا لیکھ / लेख ہے۔ اس کے معنی میں’ دھاری، سطراور خط ‘ وغیرہ شامل ہیں۔ اس ’لیکھ‘ سے مصدر ’لکھنا‘ ہے، یوں لکھنے والا ’لیکھک‘ کہلاتا ہے۔ حبیب جالب کا شعر ہے:
گیت لکھائیں پیسے نا دیں فلم نگر کے لوگ
ان کے گھر باجے شہنائی، ’لیکھک‘ کے گھر سوگ
خیر ’لکیر‘ سے لکھنے کا مفہوم عربی میں بھی موجود ہے اور وہ یوں کہ عربی میں لکیر یا لائن کو ’خط‘ کہتے ہیں۔ اسے خطِ مستقیم (straight line) اور خطِ استواء (equator line) کی ترکیب میں دیکھ سکتے ہو۔
چوں کہ ’خط‘ سے لکھنے کا مفہوم پیدا ہوا یوں  ’رسم الخط‘، چٹھی، مراسلہ اور مکتوب وغیرہ اس کے معنی میں داخل ہیں۔ پھر لکھنے کی رعایت سے ’خط‘ کے ساتھ ’خطوط‘، خطاط ، خطاطی اور مخطوطہ جیسے بہت سے لفظ وابستہ ہوگئے۔ ایک ترکیب ’خط کتابت‘ بھی ہے جسے ’واؤ‘ کے بلا جواز اضافے کے ساتھ ’خط و کتابت‘ لکھا جاتا ہے، جو کسی طور بھی درست نہیں۔ اب ’خط‘ کی رعایت سے جناب داغ دہلوی کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کریں:
خط اُن کا بہت خوب عبارت بہت اچھی
اللہ کرے حُسنِ رقم اور زیادہ
شعر سنا کر ڈاکٹر صاحب نے وضاحت کی کہ کچھ حضرات مصرع ثانی میں موجود’حُسن رقم‘  کو ’زورِقلم‘ سے بدل دیتے ہیں جو شعر ہی نہیں شاعر کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔
’خط‘ کے پیہم ذکر سے ہمیں مُنّا حجام یاد آگیا جس سے ہم نے افطار کے بعد کا وقت لے رکھا تھا چنانچہ ہم نے بصد احترام اجازت چاہی کہ اپنا بڑھا ہوا ’خط‘ بروقت بنوا سکیں۔
  • اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز بلاگز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: