دھرم پورہ کے علاقے میں انعم خان کی جوان موت نے سبھی کو متاثر کیا ہے اور لوگ بڑی تعداد میں تعزیت کے لئے آ رہے ہیں: فوٹو اے ایف پی
کراچی میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کا طیارہ تو تباہ ہو گیا لیکن اپنے ساتھ کئی ان کہی داستانیں بھی رقم کر گیا۔
اس حادثے میں جانے والی ہر قیمتی جان کی اپنی الگ کہانی تھی۔ تیس سالہ انعم خان اس جہاز میں فضائی میزبانی کا فریضہ سر انجام دے رہی تھیں۔
انعم خان کا تعلق لاہور کے علاقے دھرم پورہ سے ہے اور وہ گذشتہ آٹھ سال سے پی آئی اے سے وابستہ ہیں۔ ان کے والد مقصود خان جو بیٹی کے غم سے نڈھال تو ہیں لیکن بڑی ہمت اور حوصلے کے ساتھ تعزیت کے لیے آنے والوں سے مل بھی رہے ہیں۔
مقصود خان نے بتایا کہ’میں خود بھی پی آئی اے کا ملازم رہا ہوں اور سن 91 سے میں نے ریٹائرمنٹ لے رکھی ہے اور ساری توجہ اپنے بچوں پر ہے انعم میری سب سے بڑی بیٹی تھی۔ اور اسے ایئر ہوسٹس بننے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ اس کا یہ شوق دوہزار بارہ میں پورا ہوا۔‘
’اس کے بعد تو اس نے پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا اور پورا گھر ہی جیسے سنبھال لیا۔ اپنی دونوں چھوٹی بہنوں کو پڑھایا۔ ایک کو انجینیئر بنایا۔ مجھے کہتی تھی ابا میں آپ کا بیٹا ہوں میرے ہوتے ہوئے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔‘
انعم کے چچا کمال خان جو قریب ہی گھر میں رہتے ہیں نے اپنے منتشر خیالات کو یکجا کرتے ہوئے بتایا کہ "انعم کی آخری فلائیٹ مانچسٹر کے لیے تھی۔ جب سے کورونا کی وجہ سے سپیشل فلائیٹس کا آغاز کیا گیا۔ مانچسٹر سے آنے کے بعد تمام کریو کو ہوٹل میں قرنطینہ رکھا گیا اور وہ ایک ہفتے بعد گھر آئی۔"
’ابھی جب دوبارہ مقامی فلائٹس کھولنے کا اعلان ہوا۔ تو مجھے پتا چلا انعم بیٹی بھی کراچی کی فلائیٹ پر جا رہی ہے ۔ جمعے کا دن تھا میں نے انعم کے والد مقصود خان نے اکھٹے جمعہ پڑھا۔ گھر آ کے لیٹا ہی ہوں کہ مجھے فون آیا کہ انعم جس فلائیٹ پر گئی ہے وہ جہاز کریش ہو گیا ہے بس میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا" کمال خان نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے ان لمحات کو شیئر کیا جو ان پر اس خبر کو سن کر گزرے۔
انعم خان کے والد مقصود خان بتاتے ہیں کہ 'سحری اس نے بنائی سب نے روزہ رکھا مجھے کہتی ہے ابا افطار بھی آپ کے ساتھ ہی آ کے کروں گی، کراچی کی دو گھنٹے کی تو فلائیٹ ہوتی ہے۔ مجھے کیا پتا تھا کہ یہ فلائیٹ بہت لمبی ہو جائے گی۔ کچھ عرصہ قبل مجھے اور انعم کی والدہ کو دل کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا تو وہ ہم دونوں کو ہسپتال لے گئی اور سارے انتظام کرنے کے بعد رشتہ داروں کو بتایا ہم دونوں میاں بیوی کو سٹنٹ ڈلے۔ اس کے ہوتے ہوئے مجھے کسی چیز کی فکر نہیں ہوتی تھی۔ ‘
انعم خان نے گریجویشن کرنے کے بعد ہی ائیر ہوسٹس بننے کی ٹھان لی اور وہ اپنی ڈریم جاب کے بعد زندگی کو بھر پور طریقے سے جی رہی تھیں۔ ان کے خاندان کے مطابق وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو پڑھانے اور اپنے پاوں پر کھڑا کرنا چاہتی تھیں۔
انعم کے چچا کمال خان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’چھوٹی بہن کو انجینیئر بنوایا اس سے چھوٹی کو بی بی اے کروایا دونوں چھوٹی بہنیں اب نوکریاں بھی کر رہی ہیں جبکہ چھوٹا بھائی حمزہ خان ابھی گریجویشن میں ہے۔ کہتی تھی دونوں بہنوں کی شادیاں کروانے کے بعد اپنی کا سوچوں گی"۔
دھرم پورہ کے علاقے میں انعم خان کی جوان موت نے سبھی کو متاثر کیا ہے اور لوگ انعم کی تعزیت کے لیے آ رہے ہیں۔