پاکستان کی سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ ججز قابل احتساب ہیں تو حکومت بھی قابل احتساب ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کیس میں اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ ریفرنس ٹھیک نہیں بنا تو ہوسکتا ہے حکومت کا بھی احتساب ہو۔
حکومتی وکیل فروغ نسیم نے جواب دیا کہ بالکل صدر، وزیر اعظم اور وزیر قانون سب قابل احتساب ہیں۔ 'جائیداد جج کی اہلیہ کی ہیں لیکن لگتا ہے کٹہرے میں حکومت کھڑی ہے۔'
مزید پڑھیں
-
جسٹس فائز عیسیٰ کیس: ’میں ان کو اڑا کر رکھ دوں گا‘Node ID: 459826
-
صدارتی ریفرنس کے پیچھے ٹرائیکا ہے:جسٹس فائز عیسیٰNode ID: 481681
-
جسٹس فائز کیس: سماعت 11 جون تک ملتویNode ID: 483786
پیر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس کی کارروائی روکنے کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ بینچ نے کی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ بیگم صاحبہ ایف بی آر کو مطمئن نہ کر پائیں تو اثاثے چھپانے کا کیس اہلیہ پر بنے گا۔ جج صاحب پر سارا الزام کیسے آئے گا۔ قانون دکھا دیں کہ خود کفیل اہلیہ وسائل بتانے میں ناکام ہوتی ہے تو پھر بوجھ جج پر آئے گا انضباطی کارروائی کا قانون بدل نہیں سکتا۔
فروغ نسیم نے کہا کہ جائیداد کی خریداری کی وضاحت نہ آنا بڑا اہم ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سوشل میڈیا کا دور ہے جج پر جو مرضی کیچڑ اچھال دیں۔ آپ کہیں گے کہ جج کی ساکھ خراب ہو گئی۔
فروغ نسیم بولے کہ جھوٹی خبر شیئر ہوتی ہے، زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ یہاں پر جج کی اہلیہ اور بچوں کی لندن میں مہنگی جائیدادیں ہیں۔ یہ تاثر غلط ہوگا کہ جج صاحب اہلیہ کی جائیداد پر وضاحت نہیں دے رہے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ قانون کے مطابق اہلیہ اور بچوں سے پوچھ لیں جائیداد کیسے خریدی۔ فروغ نسیم نے کہا کہ جج صاحب نے جائیداد کی خریداری کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار نہیں کیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فروغ نسیم یہ بھی ذہن میں رکھیں کے عدالت کونسل کے اختیارات سے آگاہ ہے۔ ایک جج کو عمومی باتوں سے چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کا موقف ہے کہ اصل سوال جائیداد کی خریداری کے ذرائع کا ہے۔ آپ کے تمام الزامات میں کرپشن اور بد دیانتی کی بات نہیں۔ پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار سمیت ملک کے تمام بارز جج کی دفاع میں آئے ہیں۔ بار کونسل کے مطابق جج پر بدنیتی اور کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ جج بھی قابل احتساب ہیں۔ جج شیشے کے گھر میں رہتے ہیں۔ جج صاحب کہتے ہیں کہ جائیدادوں سے متعلق اہلیہ سے پوچھا جائے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ وہ ان سب سوالوں کے جواب دیں گے۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ کیا ایک جج کی نجی زندگی میں اہلیہ اور بچے کی زندگی بھی شامل ہے۔ آپ کے سامنے انکم ٹیکس اور جوڈیشل کونسل کے متعین قوانین موجود ہیں۔ آپ ہمیں مختلف قوانین پڑھا رہے ہیں۔ آپ انکم ٹیکس اور جوڈیشل کونسل کے متعین قوانین کے تحت دلائل دیں۔ آپ کہتے ہیں بیرون ملک جائیداد رکھنا مناسب نہیں۔ آپ کے مطابق جج کی اہلیہ کو پبلک آفس ہولڈر خاوند کی وجہ سے مراعات ملی ہیں۔ ذہن میں رکھیں کہ مسئلے کا حل کیا ہے۔ آرٹیکل 116 خاوند اہلیہ کے اثاثے بتانے کا پابند نہیں۔
اپنے دلائل میں وفاق کے وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ جج کی جانب سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کو کسی قانون کی خلاف ورزی تک محدود نہیں ہر سکتے۔ اہلیہ معزز جج کی فیملی کا حصہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ معزز جج اور اہلیہ دونوں نے لندن کی جائیدادیں ظاہر نہیں کی۔ آرٹیکل 63 میں اہلیہ کے زیر کفالت کے حوالے سے کوئی تفریق نہیں رکھی گئی۔ برطانیہ میں اہلیہ کی جانب سے بار کو خط لکھنے پر جج کے خلاف کارروائی ہوئی۔ پاکستان کا آئین غیر جانبدار ہے آرٹیکل 209 میں اہلیہ کو زیر کفالت یا خود کفیل رکھنا بلا جواز ہے۔ کسی کا اپنے یا اہلیہ کے نام جائیداد ظاہر نہ کرنا قابل سزا جرم ہے۔ آرٹیکل 63 کے تحت جائیدادیں ظاہر نہ کرنے والا رکن اسمبلی اپنی رکنیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ جج بھی سروس آف پاکستان میں آتا ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ فروغ نسیم صاحب کیا آپ کا یہی مقدمہ ہے؟ جو دلائل آپ دے رہے ہیں یہ آپکا مقدمہ نہیں ہے۔ آپ کی دلیل یہ تھی کہ ہمارا مقدمہ شوکاز نوٹس جاری ہونے کا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کا نقطہ یہ تھا مواد کونسل کے سامنے آنے کے بعد باقی چیزوں کی اہمیت نہیں رہی۔
فروغ نسیم نے جواب دیا کہ افتخار چوہدری کیس کا اطلاق موجودہ مقدمے پر نہیں ہوتا۔ جوڈیشل کونسل کے شوکاز نوٹس کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ الیکشن کمیشن کے پاس آنیوالے مواد پر از خود کاروائی کا اختیار ہے۔ الیکشن کمیشن نقائص پر مبنی درخواست پر کاروائی کر سکتا ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کونسل کے سامنے جج کے خلاف آمدن سے زائد ذرائع کا مواد کیا تھا؟ کسی فورم پر یہ ثابت کریں کہ اہلیہ کو جائیداد خریدنے کیلئے جج نے پیسے دیے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے 2008.9 میں بطور وکیل اپنی آمدن ظاہر کی۔ وضاحت دینی ہے کہ پراپرٹیز کیسے خریدی گئیں۔ آج کے دن تک اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اہلیہ کو اپنے والدین والدین سے کچھ ملیں کیا وہ بتانا بھی خاوند کی ذمہ داری ہے؟ فروغ نسیم نے کہا کہ اہلیہ کے اثاثے آمدن سے زائد ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اہلیہ کے اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں تو اس کا تعین کس فورم پر ہوگا۔ فروغ نسیم نے کہا کہ سروس آف پاکستان کے تحت یہ جواب خاوند نے دینا ہے۔ ایسا کونسا ریکارڈ ہے جس سے اہلیہ کے اثاثے آمدن سے زیادہ لگتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
نواز شریف اور زرداری ’سرکاری گاڑیاں لینے‘ پر عدالت طلبNode ID: 481556
-
’عدالت دیکھے گی بی آر ٹی میں مفادات کا ٹکراؤ تو نہیں؟‘Node ID: 482741
-
عدالت کا سنتھیا رچی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکمNode ID: 485386