Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'کورونا کی دوا دریافت ہونے میں وقت لگے گا'

اجلاس کا ایجنڈا ایکٹمرا انجیکشن، پلازما اور ڈیکسامیتھا زون کے استعمال اور ابہام پر مشتمل تھا (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے صحت حکام نے خبردار کیا ہے کہ کورونا کا علاج دریافت نہیں ہوا ہے اور اگلے ایک سال تک اس کے امکانات کم ہی ہیں کہ اس مرض کے لیے کوئی فیصلہ کن دوا دستیاب ہو گی۔
یہ بات اپنی نوعیت کی پہلی ویڈیو کانفرنس میں پنجاب میں بنائے گئے کورونا ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ CEAG اور وزارت صحت کے حکام نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہی ہے۔
ویڈیو کانفرنس جو کہ زوم ایپلیکیشن کے ذریعے منعقد کی گئی میں صوبہ بھر کے تمام ضلعی اور تحصیل ہسپتالوں کے انچارج شریک ہوئے۔ جبکہ کانفرنس کی صدارت کورونا ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ کے سربراہ ڈاکٹر محمود شوکت نے کی۔ جبکہ محکمہ صحت کے دونوں سیکریٹریز اور ڈرائیکٹر جنرل محکمہ صحت بھی اس کانفرنس میں شریک تھے۔
ڈاکٹر محمود شوکت نے بتایا کہ اس ویڈیو کانفرنس کا مقصد لوگوں میں کورونا کے علاج سے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔
اجلاس کا ایجنڈا ایکٹمرا انجیکشن، پلازما اور ڈیکسامیتھا زون کے استعمال اور ابہام پر مشتمل تھا۔

ایکٹمرا انجیکشن

بریفنگ میں بتایا گیا کہ لوگوں نے میڈیا رپورٹس کے ذریعے ایکٹمرا انجیکشن کو کورونا کا علاج سمجھ لیا ہے جو کہ بالکل بھی درست بات نہیں۔ ڈاکٹر محمود شوکت نے بتایا کہ 'لوگ جنونیت کی حد تک اس انجیکشن کی خریداری میں لگے ہوئے ہیں ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ انجیکشن کورونا کا علاج نہیں ہے۔'
ان کے بقول یہ ایک تجرباتی دوا ہے جو صرف جسم کی سوزش ختم کرنے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ کچھ مریضوں میں اس دوا کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ وہ بھی صرف اس حالت میں جب مریض کسی غیر معمولی جسمانی سوزش کا شکار ہو رہا ہو تو اس کو کم کرنے کے لیے ایکٹمرا کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ کورونا وائرس سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی یہ جان بچانے والی دوا ہے۔'

محکمہ صحت کے حکام نے ایک بار پھر کہا ہے کہ لوگ خود ادویات خرید کر ذخیرہ نہ کریں (فوٹو: اے ایف پی)

ایڈوائزر گروپ کے میو ہسپتال کے ممبر پروفیسر ڈاکٹر ثاقب سعید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ 'پوری دنیا اس وقت اس وائرس سے متعلق سیکھ رہی ہے اور ہم بھی اسی عمل سے سیکھ رہے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'اٹلی میں 126 افراد پر ایک کنٹرولڈ ماحول میں اس دوا کو استعمال کیا گیا جس کے نتائج کوئی حوصلہ افزا نہیں رہے جس کے بعد اس دوا کا استعمال ترک کر دیا گیا اسی طرح چین نے ابھی ایکٹمرا کو استعمال کیا۔ ہم بھی کر رہے ہیں لیکن انتہائی مخصوص حالات میں اور نتائج کے بارے میں بھی ہم حتمی رائے قائم نہیں کر سکتے۔'
انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی قطعاً اس دوا کو ذخیرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر لوگ اس کو اپنی مرضی یا خواہش کے مطابق استعمال کریں گے تو یہ انتہائی غلط راستہ ہو گا۔
'اس کی وجہ یہ ہے کہ کورونا سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے یعنی اگر ان کو ایکٹمرا کا انجیکشن لگائیں یا نہ لگائیں انہوں نے صحت یاب ہونا ہی ہونا ہے۔ ایسے مریض جن کو واقعی میں ایکٹمرا سے فائدہ ہوا اور ایسے مریص جن کو بالکل بھی نہیں ہوا ان کو الگ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اور یہ سائنسی عمل اور تحقیق کے سامنے بہت بڑی رکاوٹ بن جائے گی۔'

ویڈیو کانفرنس میں ڈیکسا میتھا زون کے کورونا کا علاج سمجھنے کے مفروضے کو رد کیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ اگر اس دوا کے بہت زیادہ استعمال سے وائرس نے اپنی شکل بدل لی یا میوٹیشن اختیار کر لی تو یہ ایک تباہ کن صورت حال ہوسکتی ہے لہٰذا لوگ ڈاکٹروں پر بھروسہ رکھیں اور میڈیا رپورٹس دیکھ کر اپنی خواہشات پر علاج نہ کروائیں اس صرف اور صرف نقصان ہو گا۔

پلازمہ کی کہانی

کورونا ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ نے کورونا سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کے خون سے پلازمہ حاصل کر کے کورونا کے دیگر مریضوں میں داخل کرنے کے طریقہ علاج کو بھی ابھی تک کے لیے ایک غیر مستند طریقہ کار قرار دیا۔
ڈاکٹر محمود شوکت کے مطابق 'پلازمہ کی منتقلی ایک نہایت ہی سنجیدہ کام ہے۔ ہر وہ کام جس میں خون ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل کیا جاتا ہے، اس میں خطرات زیادہ ہیں۔ چین نے سب سے پہلے اسے استعمال کیا اور 20 ہزار لوگوں میں یہ لگایا گیا لیکن اس کے سائنسی اعتبار سے حوصلہ بخش نتائج نہیں نکلے۔ یہ تھراپی بھی انتہائی مخصوص حالات میں تجویز کی جا سکتی ہے اور وہ بھی صرف ایک ماہر ڈاکٹر بتا سکتا ہے۔'
کورونا ایڈوائزری گروپ کے ایک اور ممبر ڈاکٹر جاوید اقبال نے بتایا کہ 'پلازمہ اس لیے تجویز کیا گیا کہ جب ایک شخص کے جسم سے کورونا کا وائرس نکل جاتا ہے تو اس جسم میں کورونا کے خلاف قوت مدافعت یعنی انٹی باڈیز تخلیق ہو جاتی ہیں خیال یہ تھا کہ اینٹی باڈیز والا خون دوسرے کسی مریض میں منتقل کرنے سے اس کے جسم میں مدافعتی نظام کو سہارا دیا جا سکتا ہے جو کہ کورونا کے خلاف لڑ رہا ہوتا ہے۔' 
ان کے بقول 'مسئلہ یہ ہے کہ ہر جسم میں اینٹی باڈیز کی مقدار مخلتف ہوتی ہے اور لوگوں کا بلڈ گروپ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے لہٰذا اس کا استعمال انتہائی زیرک طریقے سے تجویز کرنا ہوتا ہے مریض کے جسم کو واقعی پلازمہ کی ضرورت ہے یا نہیں یہ بہت بڑا سوال ہے غلط پلازمہ لگنے سے صورت حال بگڑ بھی سکتی ہے۔' 
انہوں نے کہا کہ 'سائنسی طور پر یہ ایک تجرباتی طریقہ کار ہے اور ابھی تک بہت کم لوگوں میں اس کا مکمل فائدہ نوٹ کیا گیا ہے۔ اس لیے لوگ جذباتی نہ ہوں کیونکہ لوگوں کے اس عمومی رویہ کی وجہ سے پلازمہ فروخت ہونے کی خبریں بھی آ رہی ہیں ایک ایسا علاج جو حتمی ہے ہی نہیں اس سے معاشرتی خرابی نے بھی جنم لے لیا'۔

کانفرنس میں بتایا گیا کہ حکومت کے پاس ادویات کا وافر سٹاک موجود ہے (فوٹو: شٹر سٹاک)

انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت ایک شکایت سیل بھی بنا رہی ہے جس میں پلازمہ اور دیگر دوائیوں کو ذخیرہ کرنے کے اقدامات کی سرکوبی کی جائے گی۔

ڈیکسا بھی علاج نہیں

ویڈیو کانفرنس میں ڈیکسا میتھا زون کے کورونا کا علاج سمجھنے کے مفروضے کو رد کیا گیا۔ ڈاکٹر محمود شوکت کے مطابق ڈیکسا میتھا زون ایک سٹیرائیڈ ہے اور سٹیرائیڈ عام حالات میں بھی خطرناک ہوتے ہیں کورونا کے مریضوں میں اس کا استعمال تو انتہائی باریک بینی کا معاملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'مختلف طرح کے سٹیرائیڈ ہمارے ڈاکٹر پہلے ہی استعمال کر رہے ہیں وہ بھی بیماری کے مراحل میں ایک مرحلہ ایسا آجائے جس میں آکسیجن کی فراہمی میں کمی واقع ہونے کے ساتھ ساتھ مریض کے مختلف ٹیسٹ کیے جائیں تو ایک مخصوص وقت ہوگا جب ڈیکسا یا کوئی اور سٹیرائیڈ انتہائی معمولی مقدار میں جسم میں داخل کیا جائے۔ تاکہ مریض ایسی صورت حال سے باہر نکلے لیکن ڈیکسا سے بھی وائرس نہیں مرتا۔'
ڈاکٹر محمود شوکت کہتے ہیں کہ ایک کورونا کے مریض کو شوگر یا ہائی بلڈ پریشر کا مرض لاحق ہے تو ہو سکتا ہے وہ کورونا سے بچ جائے لیکن سٹیرائیڈ سے اسکی جان کو زیادہ خطرہ ہو سکتا ہے۔
'یہی بات ہم سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ تینوں طریقے کورونا کے علاج نہیں ہیں نہ ہی جان بچا سکتے ہیں یہ صرف مریض کی ایک مخصوص کنڈیشن کو مزید بگڑنے سے شاید روک سکیں وہ بھی حتمی طور پر تبھی پتا چلے گا اگر کنٹرولڈ ماحول میں صرف ڈاکٹر یہ تجربات کریں۔'

کلوروکوئین کا استعمال روک دیا

پنجاب کے کورونا ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ نے انکشاف کیا کہ صوبے میں اس وقت کلوروکوئین کا استعمال مکمل طور پر روک دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر محمود شوکت کے مطابق 'اب کلوروکوئین کے استعمال کو لیجیے جب یہ خبریں آئیں تو لوگوں میں انتشار پھیل گیا۔ ہم نے جتنا بھی کلوروکوئین کا استعمال کیا اس کے نتائج نہیں نکلے الٹا کچھ کیسز میں کلوروکوئین کے استعمال سے مریضوں میں پیچیدگی بھی پیدا ہوئی جس کے بعد اس کا استعمال مکمل طور پر روک دیا گیا ہے۔'

پنجاب میں کلوروکوئین کا استعمال روک دیا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ یہی تو ہم بتانا چاہ رہے کہ آپ سٹاک کریں یا کچھ بھی کریں آپ اپنی مرضی سے کورونا کے مریضوں کو افواہوں کے ذریعے ٹھیک نہیں کر سکیں گے الٹا نقصان میں ڈال دیں گے۔

وافر سٹاک موجود ہے

کانفرنس میں بتایا گیا کہ اس کے باوجود کہ یہ ادوایات کورونا کا علاج نہیں، حکومت کے پاس ان تجرباتی ادویات کا وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ عوام ان ادویات کے بارے میں فکر مند نہ ہوں۔
ایڈوائزری گروپ نے بتایا کہ 40 لاکھ کے قریب کلوروکوئین کی گولیاں اور ٹیکے سرکاری اور نجی شعبے کے پاس اس وقت موجود ہیں۔ اسی طرح ڈیکسا میتھا زون کے دو کروڑ سے زائد ٹیکے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں موجود ہیں اور حکومت نجی شعبے کی مدد سے اس کا ریکارڈ رکھ رہی ہے۔ اسی طرح ایزتھرومائی سین کی 80 لاکھ سے زائد گولیاں اس وقت اسٹاک میں موجود ہیں۔
یہ بھی بتایا گیا کہ پلازمہ کے حوالے سے بھی ایک پول بنایا گیا ہےاس حوالے سے بھی لوگوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ہر چیز وافر مقدار میں موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ مریض کے اوپر استعمال کرنے کے لیے صحیح ہے یا نہیں اور اس کا جواب صرف مستند ڈاکٹر کے پاس ہے۔

شیئر: