چیف جسٹس نے مزید کہا 50 ہزار سے ایک لاکھ مزدور مشرق وسطی سے واپس آرہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد خان نے حکومت سے استفسار کیا ہے کہ اس کی مشرق وسطی سے واپس آنے والے پاکستانیوں کے لیے کیا پالیسی ہے؟
چیف جسٹس نے کہا ہے کہ مشرق وسطی سے واپس آنے والے پاکستانی تین ماہ جمع شدہ رقم نکال لیں گے، اس کے بعد انہیں کہاں کھپایا جائے گا؟َ
سپریم کورٹ میں کورونا ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے مزید کہا کہ تین ماہ بعد مشرق وسطی سے آنے والے مزدور کیا کریں گے کیا 14 دن قرنطینہ میں رہنے کے بعد وہ جہاں مرضی ہے جائیں؟
انہوں نے ریمارکس دیے کہ 50 ہزار سے ایک لاکھ مزدور مشرق وسطی سے واپس آ رہا ہے، ان کا کیا ہوگا؟ تعلیمی اداروں سے لوگ فارغ التحصیل ہو رہے ہیں ان کو کھپانے کا کیا طریقہ ہے؟
'ہماری صحت اور تعلیم بیٹھی ہوئی ہے، کوئی ادارہ بظاہر کام نہیں کر رہا۔ ہر ادارے میں این ڈی ایم اے (نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی) جیسا حال ہے۔'
کورونا ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے وقت این ڈی ایم اے کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ پر چیف جسٹس نے کہا کہ این ڈی ایم اے کیسے کام کر رہا ہے، اربوں روپے ادھر ادھر خرچ ہو رہے ہیں، معلوم نہیں کہ ان اخراجات کی کوئی نگرانی بھی ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت یہ بھی کہا کہ این ڈی ایم اے باہر سے ادویات منگوا رہا ہے، یہ ادویات کس مقصد کے لیے منگوائی جا رہی ہے؟ اور جو ادویات باہر سے آرہی ہیں ان کی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے منظوری ہونی چاہیے۔
اس موقعے پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ادویات کی منظوری ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی دیتی ہے۔ جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ باہر سے منگوائی جانے والی ادویات کس کو دی جاتی ہیں؟
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ایسی سہولت فراہم کرنے کے لیے این ڈی ایم اے نے کوئی اشتہار دیا؟
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ این ڈی ایم اے نے صرف ایک نجی کمپنی کو سہولت فراہم کی۔ ’ہم چاہتے ہیں ہر چیز میں شفافیت ہو۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کوئی کام نہیں کر رہی بلکہ بیان بازی کر رہی ہے۔ حکومت کی ٹی وی پر بیان بازی سے عوام کا پیٹ نہیں بھرے گا۔ عوام کو روٹی، پیٹرول، تعلیم، صحت اور روزگار کی ضروررت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت کی کوئی معاشی پالیسی ہے تو بتائیں؟ حکومت کا مستقبل کا ویژن کیا ہے وہ بھی بتائیں؟ حکومت عوام کے مسائل کیسے حل کرے گی؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ این ڈی ایم اے کا آڈٹ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کرتے ہیں۔ این ڈی ایم اے ادویات منگوانے میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو ادویات باہر سے آرہی ہیں ان کی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے منظوری ہونی چاہیے۔ 'لگتا ہےنیب کے متوازی این ڈی ایم اے کا ادارہ بن جائے گا۔'
این ڈی ایم اے کے ممبر نے عدالت کو بتایا کہ 28 کمپنیوں نے مشینری باہر سے منگوانے کے لیے این ڈی ایم اے سے رابطہ کیا۔ یہ 28 کمپنیاں پہلے سے چل رہی تھیں۔
اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ پھر مشینری منگوانے کی ضرورت کیا تھی۔ ممبر این ڈی ایم اے کا کہنا تھا کہ یہ نجی کمپنیاں این 95 ماسک نہیں بنا رہی تھیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دستاویز کے مطابق نجی کمپنی کے لیے مشینری این ڈی ایم اے نے اپنے جہاز پر منگوائی۔ الحفیظ نامی کمپنی نے مشینری این 95 ماسک کے لیے منگوائی۔ کیا مشینری کی کسٹم ڈیوٹی ادا کی گئی؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مشینری منگوانے میں این ڈی ایم اے نے نجی کمپنی کو سہولت فراہم کی اور مشینری پر کسٹم یا ٹیکس نجی کمپنی نے خود جمع کروایا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح تو یہ نجی کمپنی این 95 ماسک بنانے والی واحد کمپنی بن گئی ہے۔ کسی انفرادی شخصیت کو فیور نہیں ملنی چاہیے۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ 'نجی کمپنی کا مالک دو دن میں ارب پتی بن گیا ہوگا۔ نہیں معلوم اس کمپنی کے پارٹنرز کون ہیں، ایسی مہربانی سرکار نے کسی کمپنی کے ساتھ نہیں کی۔ نہیں معلوم باقی لوگوں اور کمپنیوں کے ساتھ کیا ہوا۔'
انہوں نے ریمارکس دیے کہ کورونا وائرس نے لوگوں کو راتوں رات ارب پتی بنا دیا اس میں کافی سارے لوگ شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ این ڈی ایم اے کے کام میں شفافیت نظر نہیں آرہی۔ بے روزگاری اسی وجہ سے ہے کہ حکومتی اداروں سے سہولت نہیں ملتی۔
چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ باقی شعبوں کو بھی اگر ایسی سہولت ملے تو ملک کی تقدیر بدل جائے۔ پیداوار اتنی بڑھ جائے گی کہ ڈالر بھی 165 سے کم ہو کر 20 سے 25 روپے کا ہوگا۔ ‘ہمیں یاد ہے کہ ڈالر کبھی تین روپے کا ہوتا تھا۔'
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ایک صوبے کا وزیراعلی آمر ہے اس کی وضاحت کیا ہوگی؟ وزیراعظم اور وفاقی حکومت کی اس صوبے میں کوئی رٹ نہیں ہے؟
'پیٹرول، گندم، چینی کے بحران ہیں، کوئی بندہ نہیں جو اس بحران کو دیکھے۔'
اس موقعے پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مسلم ممالک میں پاکستان ایسا ملک ہے جہاں رمضان میں قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ دیگر ممالک میں رمضان میں چیزوں کی قیمتیں کم ہو جاتی ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت چار ارب روپے 400 لگژری گاڑیوں کے لیے کیسے خرچ کر سکتی ہے؟ یہ گاڑیاں صوبے کے حکمرانوں کے لیے منگوائی گئی ہیں۔ ایک گاڑی کی قیمت ایک کروڑ 16 لاکھ ہے۔ اس طرح کی لگژری گاڑیاں منگوانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
'چار ارب روہے کی رقم سپریم کورٹ کے پاس جمع کرائیں۔ کراچی کا نالہ صاف کرنے کے لیے پیسے نہیں۔ کیا پنجاب، کے پی، اوربلوچستان ایسی گاڑیاں منگوا رہے ہیں؟'
ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ کے پی اور پنجاب ایسی لگزری گاڑیاں نہیں منگوا رہے۔
اس موقعے پر جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ آکسیجن سلنڈر کی قیمت پانچ ہزار سے کئی گنا بڑھ گئی۔ صوبائی حکومت شہریوں کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے حکومت کہاں ہے؟
جسٹس قاضی امین نے مزید کہا کہ جج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شہری بھی ہوں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لوگوں کو بڑی امید تھی اس لیے تبدیلی لائے۔ پوری حکومت کو 20 لوگ یرغمال نہیں بنا سکتے۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ سیاسی لوگ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے پر آگئے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت قانون کے اندر رہتے ہوئے سخت فیصلے کر رہی ہے۔ گندم کا بحران پیدا ہوا جس کی کوئی وجہ نہیں تھی۔
چیف جسٹس نے کہا حکومت کی اگر کوئی خواہش ہو تو حکومت کو کوئی روک نہیں سکتا۔ حکومت ہر کام میں قانون کے مطابق ایکشن لے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ لاک ڈاؤن کے دوران لوڈ شیڈنگ کس بات کی ہو رہی ہے؟ دوکانیں اور ادارے بند ہیں پھر لوڈ شیڈنگ کیسی؟
'جس ملک کے لوگوں کو 18 گھنٹے بجلی نہیں دیں گے وہ بات کیوں سنیں گے؟ جن کو روزگار، صحت اور دیگرسہولیات نہیں ملیں گی تو وہ حکومت کی بات کیوں سنیں گے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے عوام کے ساتھ اپنا معاہدہ توڑ دیا۔ آئین کا معاہدہ ٹوٹے بڑا عرصہ ہو چکا ہے۔ لوگ انتظار میں ہیں کہ انہیں کب یہ پھل ملے گا، یہ پھل چند لوگوں کو مل گیا۔