Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چمن: ہلاکتیں پانچ ہوگئی، تاجروں کا احتجاج ختم کرنے کا اعلان

وزیرداخلہ بلوچستان ضیا اللہ لانگو نے کہا کہ واقعہ کی تحقیقات کرائی جائیں گی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
چمن میں دو ماہ سے دھرنے پر بیٹھے آل پارٹیز تاجر اتحاد اور مزدور (لغڑی) اتحاد نے اپنا احتجاج ختم کردیا۔
چمن کے اسسٹنٹ کمشنر چمن کے مطابق مظاہرین نے وزیر داخلہ بلوچستان ضیاء لانگو کی سربراہی میں حکومتی وفد کی یقین دہانی پر اپنا احتجاج ختم کردیا۔ صوبائی وزراء ، پاک فوج، ایف سی، ضلعی انتظامیہ اور قبائلی عمائدین پر مشتمل حکومتی وفد نے مظاہرین کو یقین دلایا کہ عید کے فوری بعد پاکستان اور افغان حکام کی فلیگ میٹنگ ہوگی جس میں سرحد کھولنے سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔
سرحد کھولنے کے بعد وزیراعلیٰ کی بنائی گئی حکومتی کمیٹی سرحد پر آمدروفت کا طریقہ کار طے کرنے کیلئے مشاورتی عمل کو آگے بڑھائے گی۔
ذکاء درانی کے مطابق کل فائرنگ سے زخمی ہونے والے مزید دو افراد دم توڑ گئے جس کے بعد ہلاک ہونے والے مظاہرین کی تعداد پانچ ہوگئی۔
اس سے قبل مظاہرین نے جمعے کے روز دوبارہ سرحدی گیٹ کی جانب مارچ کیا جس کے دوران ان کا فورسز کے ساتھ تصادم ہوا۔ فائرنگ اور پتھراؤ سے تین لیویز اہلکاروں سمیت مزید دس افراد زخمی ہوگئے۔ مشتعل افراد نے لیویز کی ایک گاڑی کو آگ لگا کر تباہ کردیا ۔

گزشتہ روز چمن میں سرحد نہ کھولنے کے تنازع پر فورسز اور مظاہرین میں جھڑپ کے نتیجے میں خاتون سمیت تین افراد ہلاک اور سترہ زخمی ہوئے تھے

اسسٹنٹ کمشنر ذکاء درانی کے مطابق کل فائرنگ سے زخمی ہونے والے مزید دو افراد دم توڑ گئے جس کے بعد ہلاک ہونے والے مظاہرین کی تعداد پانچ ہوگئی

اس سے قبل کل واقعہ کے خلاف جمعہ کو چمن میں سیاسی جماعتوں کی اپیل پر شٹرڈاؤن ہڑتال کی گئی۔

صبح دوبارہ مظاہرین کی ایک بڑی تعداد جمع ہوئی اور پاکستان افغانستان کی سرحد کے قریب مرکزی شاہراہ پر دھرنا دیا۔ احتجاج کے دوران لیویز اہلکاروں اور مظاہرین میں تصادم ہوا۔ اس موقع پر پتھراؤ اور فائرنگ بھی ہوئی جس میں سات مظاہرین اور تین لیویز اہلکار زخمی ہوئے۔

 


فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ سرحد نہ کھولنے کے تنازع پر ہوئی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

لیویز کے مطابق مشتعل مظاہرین نے لیویز کی ایک گاڑی کو جلایا اور اس کے بعد ایف سی قلعہ پر بھی پتھراؤ کیا۔

سول ہسپتال چمن کے ایک ڈاکٹر کے مطابق ہسپتال لائے گئے زخمیوں میں پانچ کو گولیاں لگی ہیں ۔ باقی پتھر لگنے سے زخمی ہوئے ہیں۔ 

دوسری جانب وزیرداخلہ بلوچستان ضیاء لانگو کی سربراہی میں حکومتی وفد صورتحال پر قابو پانے کیلئے چمن پہنچ گیا۔

انہوں نے چمن میں ایف سی، ضلعی انتظامیہ کے حکام اور قبائلی عمائدین سے ملاقاتیں کیں۔

جمعرات کو سرحد پر ہنگامہ آرائی کے بعد سرحد پر تعینات پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان بھی رات گئے تک جھڑپیں جاری رہیں تھی۔

افغان حکام  نے متعدد ہلاکتوں کا دعویٰ کیا تھا تاہم پاکستان کی جانب سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔


افغان حکام  نے متعدد ہلاکتوں کا دعویٰ کیا تھا تاہم پاکستان کی جانب سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

حکام نے بتایا تھا کہ جمعرات کی شام کو پاکستانی حدود میں باب دوستی سرحدی گیٹ کے قریب فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ سرحد نہ کھولنے کے تنازع پر ہوئی۔ مشتعل مظاہرین نے نادرا سینٹر اور کورونا قرنطینہ مرکز کو نذر آتش کرکے کنٹینرز اور دیگر سامان لوٹ لیا۔ مظاہرین نے باب دوستی گیٹ کو بھی نقصان پہنچایا۔ 

چمن کے اسسٹنٹ کمشنر ذکا درانی نے ٹیلیفون پر اردو نیوز کو بتایا تھا کہ ہنگامہ آرائی کے دوران ہزاروں افغان باشندے رکاوٹیں ہٹا کر افغانستان کی حدود میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

’ہنگامہ آرائی کے بعد افغان فورسز نے پاکستانی فورسز کی چوکیوں پر فائرنگ شروع کردی جس کے بعد دونوں ممالک کی فورسز کے درمیان جھڑپ کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا۔ دونوں طرف سے چھوٹے اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔‘

انہوں نے رات دس بجے بتایا تھا کہ ’سرحدی علاقوں میں بھاری دھماکوں کی آوازیں سنی جاری ہیں تاہم دونوں ممالک کی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں اب تک کسی نقصان کی اطلاع نہیں کیونکہ گولے شہری آبادی کی طرف نہیں گرے۔‘

جھڑپ کے نتیجے میں سرحد کے دونوں جانب آبادیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور انہوں نے جانیں بچانے کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کا رخ کیا۔ چمن کے مقامی صحافی نور زمان اچکزئی نے بتایا کہ رات تقریباً ایک بجے دھماکوں کی آوازیں آنا بند ہوگئی تھیں اور جھڑپ رک گئی۔ 


چمن سرحد بھی افغان باشندوں کی آمدورفت ہوتی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب افغان حکام کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی فورسز کی بمباری کے نتیجے میں افغان حدود میں سرحدی ضلع سپین بولدک کے سرحدی گاﺅں کلی لقمان اور زاڑہ کلی میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ افغانستان کی وزارت دفاع نے نو افراد کے ہلاک ہونے اور 50 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے جبکہ کندھار کے گورنر حیات اللہ حیات نے پندرہ افراد کے ہلاک اور 80 ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ تاہم پاکستانی عسکری حکام نے ابھی تک دونوں ممالک کی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپ سے متعلق سرکاری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ 

پاکستان افغان چمن سرحد پر اس سے قبل مئی2017 میں مردم شماری کے تنازع پر افغان اور پاکستانی فورسز میں جھڑپیں ہوئی تھیں جس میں بھاری جانی نقصان ہوا تھا۔ پاکستان افغان سرحد کی حفاظت کی ذمہ داری فرنٹیئر کور بلوچستان کی ہے جس کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کسی بھی خطرے کے پیش نظر سرحد پر ایف سی کے اضافی دستے تعینات کر دیئے گئے ہیں جبکہ پاکستان فوج کے دستے بھی سرحد پر پہنچ گئے۔

اس سے قبل جمعرات کی شام تقریباً چھ بجے پاکستانی حدود میں سرحدی گیٹ کے قریب فورسز اور مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا جس کے فائرنگ بھی ہوئی۔

اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ فائرنگ کس جانب سے ہوئی مگر اس فائرنگ کے نتیجے میں تین افراد جاں بحق ہوئے جن میں ایک خاتون بھی شامل ہیں۔ 17 افراد زخمی بھی ہوئے جنہیں سول ہسپتال میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔

سول ہسپتال چمن کے سینئر میڈیکل آفیسر ڈاکٹر محمد اختر نے بتایا کہ مرنے والے تینوں افراد کو گولیاں لگی تھیں۔ زخمیوں میں بیشتر کو گولیاں لگی ہیں۔ مرنے والی خاتون کی شناخت 27 سالہ فرزانہ کے نام سے ہوئی ہے۔ باقی دو افراد چالیس سالہ نقیب اللہ اور اٹھائیس سالہ عمران چمن کے علاقے بائی پاس کے رہائشی بتائے جاتے ہیں۔

خیال رہے کہ چمن میں سرحد کی بندش کے خلاف گزشتہ دو ماہ سے آل پارٹیز تاجر اتحاد اور مزدورتنظیموں نے دھرنا دے رکھا ہے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ پاکستان افغان سرحد پر پہلے کی طرح آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دی جائے۔ پاکستان نے دو مارچ کو کورونا وائرس کی منتقلی کے پیش نظر پاکستان افغان سرحد کو بند کردیا تھا۔ بعد میں پاکستانی حکام نے طورخم کی طرح چمن سرحد پر بھی پیدل آمدورفت اور مقامی سطح کی تجارت کو پہلی بار باضابطہ قانونی شکل دینے کا فیصلہ کیا اور 70 سالوں میں پہلی بار آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزہ کی شرط لازمی قرار دے دی۔ 


اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق کنٹینرز اور دیگر سامان کو بھی جلایا اور لوٹا گیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

گزشتہ چار ماہ سے سرحد کی بندش کے باعث دونوں طرف ہزاروں پاکستانی اور افغان باشندے پھنسے ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز دھرنے کے شرکا اور ایف سی حکام میں مذاکرات کے ذریعے طے پایا تھا کہ سرحد کو دو روز آمدروفت کے لیے کھول دیا جائے گا تاکہ دونوں جانب پھنسے افراد عید الاضحی پر اپنے وطن واپس آسکیں۔

بدھ کو سرحد کو کھولا گیا تاہم جمعرات کو پاکستان میں پھنسے خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں افغان باشندے وطن واپسی کے لیے چمن پہنچے تو سرحد نہ کھولنے پر لوگ مشتعل ہوگئے۔ 

اسسٹنٹ کمشنر چمن ذکا درانی کا کہنا تھا کہ تصادم اس وقت شروع ہوا جب سرحد نہ کھولنے پر دھرنے کے شرکا نے سرحد پر پھنسے ہزاروں افراد کے ساتھ مل کر زبردستی بارڈر کھولنے کے لیے خار دار تاریں اور دیگر رکاوٹیں ہٹا کر سرحدی گیٹ پر دھاوا بول دیا۔ نادرا کے کمپیوٹر سینٹر کو نذر آتش کردیا،اس کے بعد مظاہرین سرحدی گیٹ کے قریب واقع کورونا قرنطینہ مرکز میں داخل ہوگئے اور وہاں کنٹینرز اور دیگر سامان کو جلانا اور لوٹنا شروع کردیا۔

انہوں نے بتایا کہ قرنطینہ مرکز میں تین سو سے زائد کنٹینرز تھے جن میں سے اب صرف پچاس ہی باقی بچے ہیں۔ مظاہرین نے شہر میں نصب خفیہ کیمروں کو بھی نقصان پہنچایا۔ فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی۔ 

شیئر: