کورونا وائرس نے دنیا کے تمام ممالک کے لیے یکساں پریشانیاں کھڑی کی ہیں مگر ہر ملک نے اس وائرس سے لڑنے کے لیے اپنی الگ الگ حکمت عملی اپنائی ہے گو کہ وہ پالیسی عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائنز کو دیکھ کر ہی بنائی گئی ہوں گی مگر انہی مختلف پالیسیوں کی وجہ سے کوئی ملک کورونا کو ہرانے میں پیچھے ہے تو کوئی سبقت لے گیا ہے۔
امریکہ ہو یا پاکستان ہر ملک روزانہ کی صورت حال کی بنیاد پر آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنے میں مصروف ہے۔ حال ہی میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر صوبہ پنجاب میں 5 اگست تک لاک ڈاؤن کر دیا گیا مگر عید کے دنوں کی کورونا رپورٹس دیکھنے کے بعد عوام کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب میں عید کے تیسرے روز لاک ڈاؤن ختم کر دیا گیا۔
مزید پڑھیں
-
طلبہ آن لائن پڑھائی سے ناخوش کیوں؟Node ID: 467221
-
آن لائن تعلیم: اساتذہ تیارنہ طلبہNode ID: 473916
-
کوئٹہ: آن لائن کلاسز کے خلاف احتجاج، گرفتار طلبہ کی رہائیNode ID: 487636
کئی ممالک میں تعلیمی اداروں کی بندش پر سے بھی پابندی ہٹا دی گئی ہے اور سماجی دوری اور احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے سکولز اور کالجز کو کھولنے کا حکم دے دیا گیا۔ اس دوران سوشل میڈیا پر بھی اکثر طلبہ کی طرف سے آن لائن کلاسز کی مشکلات کا ذکر بھی کیاجاتا رہا، ٹوئٹر پر لمز کے طلبہ اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے یونیورسٹی کی سافٹ اوپننگ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
جس کی وجہ سے #Smartlyreopenslums اس وقت ٹاپ ٹرینڈ میں موجود ہے۔
ٹوئٹر ہینڈل روح دار نے لکھا کہ ’انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے میری کئی کلاسز ضائع ہو گئی ہیں اور میں نے بہت سی ڈیڈ لائنز بھی گنوا دی ہیں۔ آن لائن کلاسز دھوکہ ہیں زیرو لرننگ !‘
ٹوئٹر صارف حورم نسیم نے لکھا کہ ’ہم ابھی گھر بیٹھ کر پڑھنے کے لیے بھی چار لاکھ ادا کر رہے ہیں۔ کیا یہ ہے وہ تعلیم کا معیار جس کا مجھ سے وعدہ کیا گیا تھا۔ میں اپنے پراجیکٹس پر گھر سے کیسے کام کر سکتی ہوں؟ لمز والوں کو چاہیے کہ اس معاملے کو سنجیدہ لیں اور اس کا حل نکالیں۔‘
ایک اور صارف ریحہ اخلاق نے طنزیہ انداز میں لکھا کہ ’لمز یونیورسٹی کی ایڈمن کا کہنا ہے کہ ہم اس لیے یونیورسٹی نہیں کھول سکتے کہ ہمیں طلبہ کی صحت کی فکر ہے، مگر ہم آپ سے ان تمام سہولیات کے پیسے لے سکتے ہیں جو آپ استعمال بھی نہیں کر رہے۔‘
جہاں کئی صارفین انٹرنیٹ نہ ہونے اور بہت سے علاقوں میں غیر معیاری انٹرنیٹ سروس کی وجہ سے پریشان نظر آئے وہیں کچھ ایسے بھی تھے جن کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود تھی مگر گھر والوں کی طرف سے دیے گئے کاموں کے بوجھ نے ان کی پڑھائی مشکل کر رکھی ہے۔
ٹوئٹر ہینڈل زون نے لکھا کہ ’ہم میں سے کئی گھروں میں قید ہیں جس کی وجہ سے گھر والوں کو لگتا ہے کہ ہم بالکل فارغ ہیں اور ہم سے 7/24 کام لیا جا سکتا ہے جس کے بعد پڑھائی کے لیے کوئی طاقت نہیں رہتی اس لیے یونیورسٹیز اور ہاسلٹز بھی کھولیں!