زرد چادر پوش حجازی خاتون والا فن پارہ مقبولیت کے ریکارڈ توڑ گیا (فوٹو: سیدتی)
سعودی عرب میں تجریدی آرٹ کا اپنا ایک حسن ہے۔ سعودی اور بین الاقوامی نمائشوں میں تجریدی آرٹ کے فن پارے اپنی پہچان بنا چکے ہیں۔ ان میں صفیہ بن زقر بھی ہیں جنہوں نے اپنے فن پاروں سے دنیا بھر کو ششدر و حیران کررکھا ہے۔
صفیہ بن زقر سعودی تجریدی آرٹ میں خداداد صلاحیتوں کی مالک ہیں۔ رنگوں اور برش سے سعودی ورثے کو پیش کرنے والی گہری نظر رکھتی ہیں۔
صفیہ بن زقر کے فن پاروں نے اہل جدہ کے ماضی کی روزمرہ زندگی کو منہ بولتی شکلوں میں پیش کرکے اپنا نام پیدا کیا ہے۔
صفیہ بن زقر تجریدی آرٹ کی تعلیم اکیڈمی میں حاصل کرنے والی پہلی سعودی ہیں۔ انہیں جدہ میں تجریدی آرٹ کے فن کاروں کی پہلی نمائش منعقد کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
نمائش کا افتتاح 1968 میں گورنر مکہ نے کیا تھا۔ اس نمائش میں سفارت کاروں، دانشوروں اور فن کاروں کو مدعو کیا گیا تھا۔
نمائش ایک سکول کے ہال میں لگائی گئی تھی اور دیواروں پر فن پارے سجائے گئے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب فن پاروں کی نمائش کے لیے ہال مختص نہیں ہوتے تھے۔
اس وقت نمائش دیکھنے والے حیرت زدہ رہ گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس خیال سے آئے تھے کہ کسی سعودی خاتون نے جو گھریلو آرٹ اور سلائی کڑھائی کی ماہر ہوں گی نے سادہ سی نمائش کا اہتمام کیا ہوگا۔ یہاں جو فن پارے سجے ہوئے ہیں وہ زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ ان کی خالق کوئی ایسی فن کارہ ہے جو فن کی دنیا میں انپی الگ پہچان رکھتی ہیں۔
صفیہ بن زقر کی یہ پہلی نمائش ان کی زندگی میں مہم جوئی سے کم نہیں تھی۔ وہ ڈری ہوئی تھیں کہ ہوسکتا ہے کہ عوام نمائش کو مکمل طور پر مسترد کردیں، لیکن جو کچھ ہوا ان کی توقع کے برخلاف ہوا۔ نمائش دیکھنے کے لیے لوگ بڑی تعداد میں آئے۔ صفیہ بن زقر کہتی ہیں کہ سچ تو یہ ہے کہ نمائش کا انعقاد میرے لیے نئے جنم دن جیسا تھا-
زرد چادر والی حجازی خاتون:
صفیہ بن زقر جدہ کے قدیم محلے الشام میں پیدا ہوئیں۔ سات برس کی عمر میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ مصر چلی گئی تھیں۔ وہاں انہوں نے ثانوی کی تعلیم حاصل کی۔ موسیقی، آرٹ اور امور خانہ داری کے مضامین پڑھے۔ قاہرہ سے اعلٰی تعلیم کے لیے برطانیہ چلی گئیں۔ وہاں انہیں نمائشیں دیکھنے، مطالعہ کرنے اور دوسروں کے تجربات سے واقفیت حاصل کرنے کے مواقع ملے۔ برطانیہ سے جدہ واپس آئیں تو 1968 میں اپنے فن پاروں کی پہلی نمائش منعقد کی۔ دارالحنان سکول میں 7 ویں عشرے میں دوسری نمائش کا ا ہتمام کیا۔ اس کے بعد تو اندرون ملک ان کی نمائشوں کا سسلسلہ جاری رہا۔
صفیہ بن زقر نے اندرون ملک کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر بیرون ملک نمائشیں منعقد کرنے کا پروگرام بنایا۔ لندن، پیرس اور جنیوا میں نمائشیں کیں۔
یوں تو صفیہ بن زقر کے دسیوں فن پارے مقبول ہوئے تاہم زرد چادر پوش حجازی خاتون والا فن پارہ مقبولیت کے ریکارڈ توڑ گیا۔ اس فن پارے سے انہیں سعودی عرب ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں شہرت ملی ہے۔ اسے ایک کتاب کا کور بنایا گیا- تعارفی لٹریچر میں اسے استعمال کیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے صفیہ بن زقر کو سعودی مونا لیزا کا لقب مل گیا۔
صفیہ بن زقر بتاتی ہیں کہ شائقین مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کا پسندیدہ ترین فن پارہ کون سا ہے۔ میں جواب دیتی ہوں’ میں ایک ماں ہوں۔ ہر ماں کو اپنے تمام بچوں سے پیار ہوتا ہے۔ یہی حال فن پاروں کا بھی ہے۔ بچوں میں کوئی بچہ ایسا ہوتا ہے جو اپنے خوبصورت رویے ، چاہت اور فیاضانہ جذبات و احساسات کے حوالے سے منفرد ہوتا ہے اور یہی پہلو اسے دوسرے بچوں سے منفرد کرتا ہے- کہہ سکتے ہیں کہ یہی اصول فن پاروں پر بھی لاگو ہوتا ہے‘۔
سعودی فنکارہ کا کہنا ہے کہ ’مجھے زرد پوش حجازی خاتون والا فن پارہ بے حد عزیز ہے۔ اسے جدہ میں منعقدہ نمائش کے دوران بڑی ٖپذیرائی ملی۔ یہ جدہ شہر کی شاہراہوں، دیواروں اور ستونوں کی زینت بنا۔ یہ میری ایک کتاب An Artists View of the Past کا کور بنا۔ کتاب 1982 کے دوران سوئٹزرلینڈ میں چھپی۔ یہ فن پارہ پیرس کی نمائش کے لٹریچر کا حصہ بنا- اسے ایفل ٹاور میں جگہ دی گئی۔ اسے آرٹ سینٹرز، قہوہ خانوں اور ریستورانوں کی دیواروں پر چسپاں کیا گیا۔ فرانس میں نمائشوں کا اعلان اسی انداز سے کیا جاتا ہے‘۔
سعودی سفارت خانے نے پیرس میں نمائش کی تو اس میں فرانس کے نامور سیاست دانوں کو مدعو کیا گیا۔ مہمانوں میں جیک شیراک بھی تھے۔ ان دنوں فرانس میں انتخابات چل رہے تھے۔ فرانس کے اخبارات کی اگلے دن کی ہیڈ لائن تھی کہ ’فرانسیسی انتخابات کے امیدوار سعودی فنکارہ کی نمائش میں‘۔
فرانسیسی میڈیا نے اس فن پارے کو سعودی مونا لیزا کا لقب دیا ہے۔
صفیہ بن زقر کہتی ہیں کہ ’میں نے کبھی کسی کا پورٹریٹ نہیں بنایا۔ ہمیشہ میری یہ ہی کوشش رہتی ہے کہ سعودی حجازی خاتون کے وقار، اس کی نسوانیت اور اس کی خود اعتمادی کو اجاگر کروں‘۔
’بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس فن پارے میں میرے اور میری بہن کے کچھ نقوش جھلکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے اپنے فن پاروں کی تیاری میں بہت ساری تصاویر سے مدد لی ہے۔ بالآخر عرب وقار اور خود اعتمادی کی نمائندہ عرب شخصیت کے نقوش میرے فن پاروں کی پہچان بن گئے ہیں۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ فن پارے میں خاتون کے بیٹھنے کا انداز اس کی خود اعتمادی کا آئینہ دار ہو‘۔