اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی 15 ستمبر تک مؤخر کر دی ہے۔
جمعرات کو جسٹس عامر فاروق اور محسن اختر کیانی نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس کے خلاف اپیل میں حاضری سے استثنٰی کی درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس عامر فاروق نے وفاق سے نواز شریف کی طبی صورت حال جاننے کے حوالے سے استفسار کیا تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت کے سامنے نواز شریف کی جو میڈیکل رپورٹس سامنے آئی تھی ان میں سابق وزیراعظم کا کسی ہسپتال میں زیر علاج ہونا نہیں بتایا گیا۔ ان رپورٹس کی بنیاد پر پنجاب حکومت نے نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کر دی۔
مزید پڑھیں
-
نواز کی میڈیکل رپورٹس اصلی یا جعلی؟Node ID: 501331
-
'نواز شریف کو جانے دینا ہماری غلطی تھی'Node ID: 501441
-
’اجازت ملی تو پاکستان آؤں گا‘Node ID: 502136
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت نے نواز شریف کے طبی صورت حال جاننے کی کوشش کی؟
اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت کے مؤقف کے بعد وفاقی حکومت کا خود معلومات لینا ضروری نہیں تھا۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ وفاق نے نواز شریف کی طبی صورت حال جاننے کی نہ کوشش کی اور نہ ہی نواز شریف کو واپس لانے کے لیے کوئی کارروائی کی۔ اس کا مطلب ہے وفاقی حکومت کو ملزم کے باہر ہونے پر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ہمیں مفرور قرار دینے کی کارروائی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ ایک کیس میں اشتہاری ہونے کے بعد کیا انہیں سنا جا سکتا ہے؟
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ وقت دیا جائے اگر کوئی قانونی نکات پر معاونت نہ کر سکا تو سرنڈر پر نظرثانی کی درخواست واپس لے لوں گا۔
عدالت نے کہا کہ نواز شریف نے سرنڈر نہیں کیا ہم انہیں کوئی استثنٰی نہیں دے رہے، خواجہ حارث کو قانونی نکات پر دلائل دینے کے لیے وقت دے رہے ہیں۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر دلائل طلب کرتے ہوئے کارروائی 15 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

اس سے قبل یکم ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو عدالت کے سامنے سرینڈر کرنے کا حکم دیا ہے۔
العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر سماعت کے بعد عدالت نے تحریری حکم نامے میں کہا تھا کہ سابق وزیراعظم 10 ستمبر کو ہونے والی آئندہ سماعت تک عدالت کے سامنے پیش ہوں۔
جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم حاضری سے استثنیٰ سے متعلق کوئی حکم ابھی جاری نہیں کر رہے لیکن درخواست گزار خود کو عدالت کے سامنے پیش کریں بصورت دیگر عدالت درخواست کے حوالے سے فیصلہ کرے گی۔'
ہم آپ کو ایک موقع فراہم کر رہے ہیں، ہم آپ کو تاریخ دیں گے اس تاریخ تک 'نواز شریف پیش نہ ہوئے تو پھر عدالت کارروائی کرے گی۔'

جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ 'ابھی ہم وارنٹ گرفتاری جاری نہیں کر رہے، ریکارڈ میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ پاکستان نہیں آسکتے۔'
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'کیا سابق وزیر اعظم کو گرفتار ہونے کا خدشہ ہے؟ کیا ایئرپورٹ پر نیب کھڑی ہے جو ان کو گرفتار کر لے گی تو اس حوالے سے بھی عدالت احکامات جاری کر دے گی لیکن نواز شریف کو عدالت میں پیش ہونا ہوگا۔'
سابق وزیراعظم نواز شریف نے العزیزیہ ریفرنس کے خلاف اپیل میں پیش ہونے سے استثنیٰ مانگتے ہوئے نمائندے کے ذریعے کارروائی کی درخواست کی تھی۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا تھا کہ سابق وزیراعظم بیماری کے باعث سفر نہیں کر سکتے۔
پاکستان کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے 31 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ کو صحت یابی کے فوری بعد پاکستان واپسی کی یقین دہانی کرائی تھی۔
