Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا اِشتہاری شخص کی درخواست سُنی جا سکتی ہے؟ ہائی کورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے کا حکم دیا تھا (فوٹو: روئٹرز)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی 15 ستمبر تک مؤخر کر دی ہے۔
جمعرات کو جسٹس عامر فاروق اور محسن اختر کیانی نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس کے خلاف اپیل میں حاضری سے استثنٰی کی درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس عامر فاروق نے وفاق سے نواز شریف کی طبی صورت حال جاننے کے حوالے سے استفسار کیا تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت کے سامنے نواز شریف کی جو میڈیکل رپورٹس سامنے آئی تھی ان میں سابق وزیراعظم کا کسی ہسپتال میں زیر علاج ہونا نہیں بتایا گیا۔ ان رپورٹس کی بنیاد پر پنجاب حکومت نے نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کر دی۔ 

 

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت نے نواز شریف کے طبی صورت حال جاننے کی کوشش کی؟ 
اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت کے مؤقف کے بعد وفاقی حکومت کا خود معلومات لینا ضروری نہیں تھا۔ 
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ وفاق نے نواز شریف کی طبی صورت حال جاننے کی نہ کوشش کی اور نہ ہی نواز شریف کو واپس لانے کے لیے کوئی کارروائی کی۔ اس کا مطلب ہے وفاقی حکومت کو ملزم کے باہر ہونے پر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ 
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ہمیں مفرور قرار دینے کی کارروائی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ ایک کیس میں اشتہاری ہونے کے بعد کیا انہیں سنا جا سکتا ہے؟ 
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ وقت دیا جائے اگر کوئی قانونی نکات پر معاونت نہ کر سکا تو سرنڈر پر نظرثانی کی درخواست واپس لے لوں گا۔ 
عدالت نے کہا کہ نواز شریف نے سرنڈر نہیں کیا ہم انہیں کوئی استثنٰی نہیں دے رہے، خواجہ حارث کو قانونی نکات پر دلائل دینے کے لیے وقت دے رہے ہیں۔ 
عدالت نے آئندہ سماعت پر دلائل طلب کرتے ہوئے کارروائی 15 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

عدالت نے کہا کہ نواز شریف نے سرنڈر نہیں کیا ہم انہیں کوئی استثنٰی نہیں دے رہے (فوٹو: ہائی کورٹ ویب)

اس سے قبل یکم ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو عدالت کے سامنے سرینڈر کرنے کا حکم دیا ہے۔ 
العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر سماعت کے بعد عدالت نے تحریری حکم نامے میں کہا تھا کہ سابق وزیراعظم 10 ستمبر کو ہونے والی آئندہ سماعت تک عدالت کے سامنے پیش ہوں۔
جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم حاضری سے استثنیٰ سے متعلق کوئی حکم ابھی جاری نہیں کر رہے لیکن درخواست گزار خود کو عدالت کے سامنے پیش کریں بصورت دیگر عدالت درخواست کے حوالے سے فیصلہ کرے گی۔'
​ہم آپ کو ایک موقع فراہم کر رہے ہیں، ہم آپ کو تاریخ دیں گے اس تاریخ تک 'نواز شریف پیش نہ ہوئے تو پھر عدالت کارروائی کرے گی۔' 

نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ ڈاکٹرز کی اجازت سے پاکستان واپس آئیں گے (فوٹو: اے ایف پی)

جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ 'ابھی ہم وارنٹ گرفتاری جاری نہیں کر رہے، ریکارڈ میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ پاکستان نہیں آسکتے۔' 
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'کیا سابق وزیر اعظم کو گرفتار ہونے کا خدشہ ہے؟ کیا ایئرپورٹ پر نیب کھڑی ہے جو ان کو گرفتار کر لے گی تو اس حوالے سے بھی عدالت احکامات جاری کر دے گی لیکن نواز شریف کو عدالت میں پیش ہونا ہوگا۔'
سابق وزیراعظم نواز شریف نے العزیزیہ ریفرنس کے خلاف اپیل میں پیش ہونے سے استثنیٰ مانگتے ہوئے نمائندے کے ذریعے کارروائی کی درخواست کی تھی۔ 
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا تھا کہ سابق وزیراعظم بیماری کے باعث سفر نہیں کر سکتے۔
پاکستان کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے 31 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ کو صحت یابی کے فوری بعد پاکستان واپسی کی یقین دہانی کرائی تھی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت نے نواز شریف کی طبی صورت حال جاننے کی کوشش کی؟ (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواست کی تھی کہ 'اگر ڈاکٹرز نے صحت یابی کے بعد اجازت دی تو پہلی فلائٹ سے پاکستان آؤں گا۔'
درخواست میں سابق وزیراعظم نے استدعا کی تھی کہ صحت یابی کے بعد وطن واپسی تک اپیل پر سماعت ملتوی کی جائے یا نامزد نمائندے کے ذریعے سماعت کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ 'کورونا وبا کے باعث لندن میں علاج تاخیر کا شکار ہوا اور  ڈاکٹرز نے تاحال پاکستان سفر کی اجازت نہیں دی۔'
سابق وزیراعظم کی جانب سے دی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’پنجاب حکومت کو ضمانت میں توسیع کے لیے میڈیکل رپورٹ سمیت تمام دستاویزات فراہم کیں۔'
انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے طے شدہ منصوبے کے تحت ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کی۔
'وکیل نے مشورہ دیا کہ عدالت میں خود پیش ہوئے بغیر فیصلہ چیلنج کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، پاکستان واپس نہ آنے کے باعث پنجاب حکومت کا ضمانت میں توسیع کا فیصلہ چیلنج نہیں کر سکا۔'
خواجہ حارث اور منور اقبال ایڈووکیٹ کے ذریعے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کے ساتھ 26 جون کی میڈیکل رپورٹ بھی عدالت میں جمع کرائی گئی تھی۔
نواز شریف کے ڈاکٹر ڈیوڈ لارنس کی رپورٹ کے ساتھ خط بھی منسلک تھا جبکہ ان کی میڈیکل ہسٹری بھی رپورٹس میں شامل تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کورونا کے بعد صورت حال معمول پر آتے ہی نواز شریف کے دل کا علاج ہونا ہے، انہیں روزانہ فزیکل سرگرمی کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

شیئر: