Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں ہندو شہریوں کی ’ہلاکت‘پر اسلام آباد میں احتجاج

اسلام آباد کے ریڈ زون میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد جمعرات سے انڈین ہائی کمیشن کے سامنے دھرنا دے رہے ہیں۔
پاکستان ہندو کونسل کے زیرانتظام ہونے والے اس مظاہرے میں ملک بھر سے ہندو برادری کے لوگ شریک ہیں جن کا مطالبہ ہےکہ انڈیا گذشتہ ماہ جودھ پور میں پراسرار انداز میں مردہ پائے گئے 11 پاکستانی ہندوؤں کے معاملے کی تحقیقات کرے۔
مظاہرین کی جانب سے انڈیا کے حکومتی اداروں پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے ان گیارہ ہندوؤں کو جودھ پور میں مبینہ طور پر زہر دے کر ہلاک کیا کیوں کہ وہ پاکستان کے خلاف جاسوسی پر آمادہ نہیں ہوئے تھے۔
یاد رہے کہ اگست کی نو تاریخ کو انڈیا کی ریاست راجستھان کے ضلع جودھپور میں ایک کھیت سے ایک ہی خاندان کے 11 ایسے افراد کی لاشیں ملی تھیں جو سنہ 2015 میں پاکستان سے ہجرت کر کے انڈیا منتقل ہو گئے تھے۔
نو اگست کے بعد بھارتی میڈیا نے اپنی رپورٹوں میں کہا تھا کہ پاکستان سے نقل مکانی کر کے آنے والے اس خاندان کے افراد نے خودکشیاں کی ہیں۔  
حالیہ چند برسوں میں پاکستان کے متعدد ہندو خاندان بھارت نقل مکانی کر گئے تھے۔ تاہم بھارت پہنچنے والے ہندو خاندانوں کو وہاں بھی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
شاہراہ دستور پر ہونے والے احتجاج کے دوران اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ اور قومی اسمبلی کے رکن ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ مظاہرے کا مقصد انڈیا میں ہندو برادری کے گیارہ افراد کے قتل پر آواز اٹھانا ہے۔
’کب تک انہیں  ایسی جاسوسی کے لیے استعمال کرتے رہیں گے اور جو ان کے قابو میں نہیں آئیں گے ان کو مار کر پھینکتے رہیں گے۔۔ایسا کب تک چلے گا؟‘
رمیش کمار کے مطابق دھرنہ دینے والوں کا مطالبہ ہے کہ انڈیا کی ایکسٹرنل افیئر منسٹری پاکستان کی ایمبیسی سے رابطہ کرے اور انہیں تحقیقات تک رسائی دے اور اب تک ہونے والی تحقیقات سے آگاہ بھی کرے اور ہلاک ہونے والے افراد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی شئیر کرے۔
’اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی بتایا جائے کہ پاکستان سے جانے والے باقی ہندو کس حال میں ہیں۔‘

پاکستان سے انڈیا ہجرت کرنے والے ہندو خاندان کے 11 افراد پر اسرار طور پر  ہلاک ہوئے تھے (فوٹو: اردو نیوز)

انڈین حکومت کی طرف سے حال ہی میں لائے گئے متنازع قانون کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا  کہ ’انڈین حکومت سٹیزن ایکٹ کا ڈرامہ کر کے پاکستانی ہندوؤں کو اپنی طرف بلاتے ہیں لیکن بعد میں ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سے کئی ہندو ہجرت کرکے انڈیا چلے گئے تھے مگر اب لوگ واپس آ رہے ہیں۔ مظاہرے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے رمیش کمار کا کہنا تھا کہ ہمارا ٹارگٹ روڈ بند نہیں کرنا تھا۔ ہمارا مقصد انڈین ہائی کمیشن کے سامنے اپنے مطالبات رکھنا تھا۔ ’مگر ہمارا راستہ روکا جا رہا ہے۔ ہمیں ڈپلومیٹک انکلیو کے اندر جانے کی اجازت دی جائے۔‘
مظاہرے کے دوران میڈیا سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد حسین چودھری نے کہا کہ بھارت کو پاکستانی ہندو برادری کے گیارہ افراد کے ناحق خون کا حساب دینا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہندو خاندان پاکستان سے گیا تھا ان کا پاکستان سے رشتہ ختم نہیں ہوا۔ انڈیا  میں جو زیادتی ہوئی اس پر حکومت کا سلوک نامناسب ہے۔ حکومت پاکستان ہندو برادری کے دکھ میں شریک ہے۔‘
فواد چوہدری نے کہا کہ متاثرہ خاندان کی واحد قانونی وارث بچی نے الزام عائد کیا ہے کہ ’ان کے خاندان کو مجبور کیا جا رہا تھا کہ وہ آر ایس ایس کے حق میں بیان دیں اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کا حصہ بنیں۔‘

ڈاکٹر رمیش کمار کے مطابق مظاہرے کا مقصد انڈیا میں ہندو برادری کے 11 افراد کی ہلاکت پر آواز اٹھانا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت نے انڈیا کو ایک فاشسٹ ریاست میں تبدیل کر دیا ہے۔ صرف پاکستان ہی نہیں انڈیا کے باقی ہمسائے بھی انڈیا کی حکومت کے اقدامات سے تنگ ہیں۔
لیاقت پور سے مظاہرے میں شریک ہونے کے لیے آنے والے بپو رام ،جو کہ  پی ٹی آئی کے ضلعی اقلیتی ونگ کے رہنما ہیں، کا کہنا تھا کہ ’جودھ پور میں قتل ہونے والے ہندو ناجائز قتل ہوئے ہیں۔ انڈیا کی حکومت کہہ رہی ہے کہ انہیں ان کی بیٹی نے زہر دے کر مار دیا ہے حالانکہ کوئی بیٹی ایسا نہیں کرتی۔ 
’ہمارا مطالبہ ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ فراہم کیا جائے  تاکہ پتا چلے ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔‘
یاد رہے کہ عام طور پر ریڈ زون کے اندر اس طرح کے مظاہروں کی اجازت نہیں ہوتی مگر اس مظاہرے کی ناصرف اجازت ملی ہے بلکہ مظاہرین کا کہنا ہے کہ ان کا ہر طرح سے خیال رکھا جا رہا ہے۔

مظاہرین مطالبہ کر رہے ہیں کہ انڈین حکومت ان کو تحقیقات سے آگاہ کرے (فوٹو: اردو نیوز)

ان کے بیٹھنے کے لیے سایہ دار ٹینٹ اور کرسیاں بھی لگائی گئی ہیں جبکہ مظاہرے کی جگہ پر ہی عارضی بیت الخلا وغیرہ کا بھی بندوبست کیا گیا ہے۔
مظاہرے میں شریک پنڈت آر سی شرما ڈی آئی خان سے آئے ہیں۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ہندو قوم کی ہمدردی میں آئے ہیں۔ ’دکھ ہوا کہ گیارہ افراد کو انڈین حکومت نے قتل کر دیا ہے۔ کیا انہیں اس لیے قتل کیا گیا ہے کہ وہ پاکستانی تھے؟‘
 

شیئر: