Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کفیل سے رابطہ نہ ہونے پر کیا کرنا چاہیے؟ 

اقامہ اور ورک پرمٹ بنوانے کی ذمہ داری کفیل کی ہوتی ہے(فوٹو سوشل میڈیا)
کورونا وائرس کے وبائی مرض سے بچاو کے لیے وزارت صحت کی جانب سے مقررکردہ احتیاطی تدابیر کے حوالے سے عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے ہر سطح پر کوشش کی جا رہی ہے۔
احتیاط کے ساتھ معمولات زندگی بھی بحال کیے جارے ہیں تاہم وزارت صحت کی جانب سے خبردار کیا گیا ہے کہ احتیاطی تقاضوں کو مدنظررکھتے ہوئے معمولات زندگی کو بحال کیاجائے تاکہ وبائی مرض دوبارہ شدت اختیار نہ کرسکے۔ 
قارئین اردونیوز کی جانب سے سوالات کا سلسلہ جاری ہے۔
عنایت خان  کا سوال ہے مجھے اپنے کفیل کا پتا نہیں کہ وہ کہاں ہے اس کا موبائل نمبر بھی میرے پاس نہیں۔ کفیل کے بارے میں کس طرح معلومات حاصل کر سکتا ہوں؟ 
جواب ـ سعودی عرب میں غیر ملکی کارکنوں کےلیے ان کے سپانسرز یعنی کفیل بے حد اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ 
ایسے کارکن جن کا مملکت آنے کے بعد اپنے کفیل یا اس کے نمائندے سے کسی قسم کا رابطہ نہیں ہوتا اور ان کا اقامہ بھی جاری نہیں کرایا گیا ہوتا انہیں چاہئے کہ وہ فوری طور پر سفارتخانے یا قونصلیٹ کے شعبہ ویلفئیر سے رجوع کرکے اپنے بارے میں مکمل معلومات فراہم کریں۔ قانون کے مطابق غیر ملکی کارکن کا اقامہ اور ورک پرمٹ بنوانے کی ذمہ داری کفیل کی ہوتی ہے جبکہ مبینہ طور پر ویزوں کی تجارت میں ملوث بعض افراد رقم لیکر انہیں چھوڑ دیتے ہیں ۔ 
سفارتخانے کو دی گئی درخواست میں اپنے ویزے کی کاپی جس میں کفیل کا نام و دیگر تفصیلات درج ہوتی ہیں کے بارے میں معلومات فراہم کریں تاکہ قونصلیٹ اپنے ذرائع سے معاملے کو فوری طور پر حل کروائے۔ بصورت دیگر ایسے افراد مشکلات میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ اس لیے آپ کو چاہئے کہ فوری طور پر اپنے بارے میں قونصلیٹ کے شعبہ ویلفئیر میں تحریری طور پر اطلاع دیں  تاکہ وہاں سے آپ کو قانونی تحفظ فراہم کیاجاسکے۔ 

غیرملکی کارکن کےلیے ضروری ہے کہ کفیل کے بارے میں معلومات ہوں(فوٹو ایس پی اے)

سعودی عرب میں مقیم کسی بھی غیرملکی کارکن کےلیے یہ ضروری ہے کہ اس کا اپنے کفیل یا اسکے مقررکردہ قانونی نمائندے کے بارے میں مکمل معلومات ہوں تاکہ کسی بھی ہنگامی حالات میں ان سے رابطہ کیا جاسکے۔  
اویس سلیمی نے پوچھا ہے کہ  میرا ہروب لگا تھا جسکی وجہ سے میری واپسی ترحیل (ڈیپوٹیشن سینٹر) کے ذریعے ہوئی معلوم یہ کرنا ہے کہ اب میں کتنے عرصے بعد سعودی عرب جاسکتاہوں؟ 
جواب ـ سعودی عرب میں امیگریشن قوانین واضح ہیں ایسے افراد جو غیر قانونی طور پر مملکت سے ڈی پورٹ کیے جاتے ہیں انہیں سزا کے طور پر آئندہ کےلیے بلیک لسٹ کردیا جاتا ہے۔ ایسے افراد جو ڈیپوٹیشن سینٹر(ترحیل ) کے ذریعے جاتے ہیں ان کے لیے بلیک لسٹ کی مدت کا تعین ہر شخص کےلیے مختلف ہوتا ہے جس کا فیصلہ اس وقت مقررہ کمیٹی کرتی ہے جو قانون شکنی کے مرتکب شخص کے کیس کا جائزہ لینے کے بعد اپنا فیصلہ صادر کرتی ہے۔  

 ڈی پورٹ کیے جانے والوں کو سزا کے طور پر بلیک لسٹ کردیا جاتا ہے۔(فوٹو ایس پی اے)

عام طور پر جس شخص کوڈی پورٹ کیاجاتا ہے اسے سفرکرنے سے قبل فیصلے سے آگاہ کیا جاتا ہے ۔ وہ افراد جوکسی قسم کے جرم کی پاداش میں ڈی پورٹ کیے جاتے ہیں ان پر کرمنل کورٹ کے فیصلے کے مطابق بلیک لسٹ کیاجاتا ہے جبکہ وہ افراد جو کفیل سے کسی تنازعہ کی وجہ سے ڈی پورٹ کیے جاتے ہیں اور ان کے خلاف کسی قسم کا کرمنل کیس ریکارڈ نہیں ہوتا انہیں 3 برس کےلیے بلیک لسٹ کیا جاتا ہے قبل ازیں یہ مدت 5 برس تھی جسے کم کرکے 3 برس کر دیا گیا ہے تاہم بلیک لسٹ کی مدت کا حساب اس دن سے کیاجاتا ہے جب غیر ملکی کارکن کو مملکت سے روانہ کردیاجاتا ہے۔
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر: