غور سے دیکھیں، تصویر فوٹو شاپ نہیں ’جدید کیمرے کا کمال‘
غور سے دیکھیں، تصویر فوٹو شاپ نہیں ’جدید کیمرے کا کمال‘
ہفتہ 12 دسمبر 2020 6:21
سعودی فوٹو گرافر عبد القادر المالکی کی حرم مکی کے قریب کلاک ٹاور کی تصویر سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنی ہوئی ہے (فوٹو:ٹوئٹر)
فلکی علوم اور موسمیات کے ماہر ڈاکٹر عبد اللہ المسند نے حرم مکی کے قریب کلاک ٹاور کی تصویر پر تبصرہ کرتے ہوئے سعودی فوٹوگرافر کے موقف کی تائید کی ہے۔
سعودی فوٹو گرافر عبد القادر المالکی کی حرم مکی کے قریب کلاک ٹاور کی تصویر سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنی ہوئی ہے جسے کئی صارفین نے فوٹو شاپ کا کمال کہہ رہے ہیں۔
عبدالقادر المالکی کا موقف تھا کہ یہ تصویر سو فیصد درست ہے، اس تصویر میں انتہائی جدید کیمرہ استعمال کیا گیا ہے۔‘
فلکی علوم اور موسمیات کے ماہر ڈاکٹر عبد اللہ المسند نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اس تصویر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ’ فلکی اور موسمیات نکہ نظرسے تصویر کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدا کی پہاڑی جہاں سے تصویر لی گئی اس کی بلندی 1959 میٹر ہے۔ کلاک ٹاور کی بلندی 900 میٹر ہے جبکہ یہ مقام طائف سے 46 کلو میٹر دور ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دوسرا مقام یعنی جدہ میں این سی بی کی بلڈنگ کی اونچائی 140 میٹر ہے اور یہ طائف سے 113 کلو میٹر دور ہے گوگل میپ پر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ الہدا کی چوٹی جہاں فوٹو گرافر موجود ہے، کلاک ٹاور اور جدہ میں این سی بی کی بلڈنگ کے درمیان خط کھینچا جائے تو یہ سیدھی لکیر بنتی ہے۔‘
ڈاکٹر عبد اللہ المسند کا کہنا ہے کہ ’صحیح بات یہ ہے کہ جس بلندی پر فوٹوگرافر موجود ہے نیز مکہ اور جدہ کا محل وقوع سطح سمندر سے قدرے بلندی پر ہے علاوہ ازیں مطلع کے صاف ہونا، یہ تمام عوامل ظاہر کر رہے ہیں کہ جدید ترین کیمرے سے یہ تصویر بن سکتی ہے۔‘
ان کے بقول ’فوٹو گرافر کے پاس جو کیمرہ موجود ہے اس کی مدد سے دو شہروں کی تصویر ایک تیسرے شہر میں بیٹھ کر کھینچنا ممکن ہے جو کیمرہ فوٹو گرافر نے استعمال کیا ہے ، اس کی خصوصیات کے لیے دو لنک منسلک کر رہا ہوں جن سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ یہ ممکن ہے۔‘
دوسری طرف کئی ٹوئٹر صارفین نے اپنے تجربات سے آگاہ کرتے ہوئے اسے ممکن قرار دیا ہے۔ انہوں نے متعدد تصاویر شیئر کی ہیں۔
اماراتی فوٹو گرافر عبد اللہ العیدروس نے کہا ہے کہ ’راس الخیمہ کے جیس پہاڑ کی بلندی پر ایک فوٹوگرافر راشد بن عزیز نے دبئی کے برج خلیفہ کی ویڈیو بنائی ہے۔ راس الخیمہ اور دبئی میں 104 کلو میٹر کی مسافت ہے مگر جدید کیمرے کی وجہ سے ایسا ممکن ہوسکا۔‘
ایک اور فوٹوگرافر خالد العتی نے کہا ہے کہ ’تصویر سو فیصد صحیح ہے، اس طرح کی تصویر کھینچنے کے لیے بلندی پر ہونا ضروری نہیں، اگر مطلع صاف ہو تو اس طرح کی تصویر ممکن ہے۔‘
انہوں نے 4 سال پہلے کھینچی گئی اپنی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں ریاض شہر سے 82 کلومیٹر دور متعدد عمارات کی تصاویر کھینچی ہیں جس میں کنگڈم ٹاور، فیصلیہ ٹاور اور دیگر عمارتیں نظر آ رہی ہیں۔‘
ایک اور صارف سہیل الیمانی نے کہا ہے کہ ’طائف میں ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ الہدا اور الشفا کی پہاڑوں سے جدہ کا سمندر نظر آتا تھا، لگتا ہے کہ اس زمانے میں ماحولیاتی آلودگی نہیں تھی‘۔
اردن کی ایک صارف ایمان الصفدی نے کہا ہے کہ ’ایسا ممکن ہے جب ماحولیاتی آلودگی کم ہو، ہمارے ہاں اردن میں لاک ڈاؤن کے دوران ماحولیاتی آلودگی انتہائی کم ہوگئی تھی تو ایک اردنی فوٹوگرافر نے عمان میں بیٹھ کر بیت المقدس کی تصویریں بنائی تھیں۔‘