ٹیسٹ سیریز کے پہلے میچ میں بابراعظم نہیں ہوں گے (فوٹو: اے ایف پی)
آپ کبھی ایسی شادی پر گئے ہیں جہاں آپ کسی کو نہ جانتے ہوں اور صرف ادھر اُدھر دیکھ کر اور كھانا کھا کر واپس آ جائیں؟ یہی حال ہماری ٹیم کا ہوا نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی 20 سیریز میں، جس میں کھلاڑی صرف ادھر اُدھر ہی دیکھتے رہے۔
نہ اُنہیں پچ کی سمجھ آ رہی تھی، نہ نیوزی لینڈ کی بولنگ کی، نہ اپنی سمجھ آ رہی تھی اور نہ ہی اِس سیریز کی اہمیت اور ضرورت سمجھ میں آ رہی تھی۔ جس قسم کی پرفارمنس ٹیم نے دی، اس کے بعد تو بندہ نیوزی لینڈ کو صرف یہی کہہ سکتا ہے کہ ’پائی تو لنگ جا سادی خیر اے۔‘ سمجھ تو مجھے بھی اِس وقت نہیں آ رہی کہ کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں؟
ٹاس کے فیصلے سے لے کر سیریز ہارنے تک، غلط فیصلوں کی اسی طرح بھرمار تھی جیسے آٹے کی قلت میں حکومتی فیصلوں کی بھرمار تھی۔ ہم نے اتنے اعتماد سے پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا جیسے ڈان بریڈ مین ہم سے ہی بیٹنگ سیکھتے رہے ہوں۔
پہلے ٹی 20 میچ میں 20 سکور پر چار وکٹیں جب گریں تو احساس ہوا کے اصل کورونا تو یہ ہے۔ جیسے کسی کی شادی پر لوگ ڈھول والوں پر پیسے پھینکتے ہیں دیوانہ وار، اسی طرح ہم نے اپنی وکٹیں دان کر دیں نیوزی لینڈ کے بولرز کو۔ اگر شاداب خان نہ ہوتے تو ہم شاید 50 پر ہی آؤٹ ہوجاتے۔ یہ تو بھلا ہو کہ اگلے ہی دن انڈیا ٹیسٹ میچ میں 36 کے سکور پر ڈھیر ہو گیا تو ہمیں تھوڑی تسلی ہوئی کہ اِس سلسلہ ذلت میں ہم اکیلے نہیں۔
ہماری بولنگ نیوزی لینڈ کے خلاف ایسے ہی تھی جیسے پیناڈول کی اک گولی بخار کے سامنے ہو۔ کوئی فرق نہیں پڑا، نہ ہمیں اور نہ ہی نیوزی لینڈ کو۔ پہلا ٹی 20 تو ہار گئے لیکن اگلے ٹی 20 میں پِھر وہی آغاز ہوا۔ وکٹ ادھر، وکٹ اُدھر، لیکن اس وقت ہمارے لیے مسیحا کا کام دیا حفیظ نے، جنہوں نے بے خوف و خطر 99 سکور بنا کر ٹیم کو بچانے کی پوری کوشش کی لیکن ان کے 99 رنز کا جنازہ ہم نے اپنی بولنگ اور فیلڈ نگ سے نکالا۔
فیلڈنگ کے لیے ہم نے ایک ہی بات سوچی ہوئی تھی کے بال خود آئے گا تو پکڑیں گے ورنہ نہیں۔ مطلب بھائی ٹریننگ بھی ہم کریں، بیٹنگ بھی ہم کریں، بولنگ بھی ہم کریں اور فیلڈنگ کے لیے بھی ہم ہی کھڑے ہوں تو کیا گیند اتنا بھی نہیں کرسکتی کے خود رک جائے یا ہاتھوں میں آ جائے؟ اتنا کیا پراؤڈ ہونا بھئی!
محمد رضوان ہمارے اوپنر تھے۔ وہ بنے ہی ٹیسٹ میچ کے لیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے آخری ٹی 20 میں بتا دیا کہ وہ کھیل بھی سکتے ہیں لیکن تب تک سیریز تو ہاتھوں سے نکل چکی تھی۔ اس کے بعد حیدر علی ویسے ہی سکور کر رہے تھے جیسے کبھی کبھی کوئی خوشی کی خبر ملتی ہے۔ حفیظ اور شاداب نے پِھر بھی ٹیم کو سہارا دیا۔ چھوٹے گراؤنڈ ہونے کی وجہ سے لگتا تھا کہ ٹیمشاید بڑی شاٹس لگائے گی لیکن شاید ٹیم بازو میں جان نہ ہونے کی وجہ سے شاٹس بھی چھوٹی ہی لگیں۔
بولنگ میں وہاب ریاض اور حارث رؤف نے یہی احساس دلایا کہ کوئی بال نہیں کروا رہا، صرف بیٹسمین کھڑے ہیں اور چوکے چھکے مار رہے ہیں۔ رانا فہیم اشرف نے کافی بہتر بولنگ کی۔ شاداب کو بولنگ چھوڑ کر بیٹنگ پر توجہ دینی چاہیے اور ٹی 20 کے حوالے سے یہی کہوں گی ہم کبھی نمبر ون ہوا کرتے تھے لیکن اگر یہی حال رہا تو ہماری ٹیم جلد ہی ختم ہوجائے گی۔ جیسے میں نے پہلے کہا تھا کی ہم سیریز میں ایک ہی میچ جیتیں گے اور ہم وہ میچ جیت گئے۔
اب آ جائیں ٹیسٹ سیریز پرجو کہ دو میچز پر مشتمل ہے۔ ہماری ٹیم کے بولنگ کوچ اپنی ہی پرفارمنس سے اِس قدر بددِل ہوئے ہیں کہ انہوں نے دوسرے ٹیسٹ میں اپنی فیملی سے ملنے کا پلان بنا لیا ہے۔ وہ یہ پرفارمنس دیکھ بھی نہیں پا رہے کیوں کے ان کو یقین نہیں آ رہا کے ان کے زیر سایہ یہ حال ہو گیا ہے ٹیم کا۔ ہمارا تو مشورہ ہے کہ پوری ٹیم کو بشمول یونس خان، وقار یونس چھٹیوں پر چلے جانا چاہیے۔
ٹیسٹ سیریز جس کے پہلے میچ میں بابراعظم نہیں ہوں گے، امید یہی ہے کہ میچ ڈیڑھ دن میں ختم ہوجائے گا۔ نیوزی لینڈ والے ٹیسٹ میچز کے لیے جو پچ بناتے ہیں وہ گھاس پر نہیں بلکہ گھاس پچ کے اوپر اگائی جاتی ہے۔ اتنی گھاس دیکھ کر قومی ٹیم واپس آنے کا سوچے گی کیونکہ اگر گھاس ہی دیکھنی تھی تو وہ تو پاکستان میں بھی ہے۔
ان پچوں پر شاید دو میچز کا سکور ملا کر ہمارا سکور 200 بنے۔ کچھ نام جو اگر کام کر گئے تو شاید ہم سیریز ڈرا ہی کر سکیں۔ جہاں تک بیٹنگ کا تعلق ہے تو اظہر علی اور محمد رضوان سے کچھ رنز کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ایک بات یاد رکھیے کہ چونکہ اسد شفیق اِس بار ٹیم میں نہیں ہیں جس کا مطلب ہے کہ اب نمبر چھ پر آ کر کوئی 100 سکور کر کے ہمیں نہیں بچائے گا۔
جہاں تک بولنگ کا معاملہ ہے، تو شاہین اور نسیم شاہ سے معجزے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ پیس کے بجائے ٹھیس پہنچنے کی زیادہ امید ہے۔ یاسر شاہ جو ایشیا سے باہر کھیل ہی نہیں پاتے وہ ہماری ٹیم میں شامل ہیں۔ ایسے جیسے ہمیں کوئی نہیں ملتا تو ہم یاسر شاہ کو ٹیم میں ڈال لیتے ہیں۔ ٹیسٹ سیریز ڈرا یا جیتنے کے لیے صرف تِین چیزیں ہی کام آئیں گی۔ اک خدا سے دعا، دوسرا بارش جو ہونی نہیں اور تیسری چیز ہے معجزہ۔ اگر ان میں سے کچھ نہ ہی ہوا تو ’تے تسی فیر نا ای سمجھو‘
آخر میں یہی کہوں گی کے پاکستان کے بولنگ کوچ نے بھی سوچ لیا ہے کہ وہ چھٹی پر جا رہے ہیں تو میں نے بھی سوچ لیا ہے کہ میں صبح تین بجے کا الارم لگا کر نہیں اٹھوں گی۔ ٹیسٹ میچ کا سکور اب صبح سات بجے الارم لگا کر دیکھا جائے گا۔ اگر کچھ امید ہوئی تو کچھ لمحے جاگوں گی ورنہ کمبل میں منہ چھپا کر دِل اور نیند ٹوٹنے کا افسوس کروں گی۔
اِس سیریز کا جتنا مجھے انتظار تھا، جو کچھ اب تک ہو چکا ہے اس پر یہی کہہ سکتی ہوں:
نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی آرزو تھی ملاقات کی