آپ دلی سے باہر نکلیں تو لگتا ہے کہ کورونا وائرس کوئی تہوار ہے جسے بڑے زور شور سے منایا جارہا ہے۔ بچے ہوں یا بڑے سب یہاں وہاں گھومتے پھر رہے ہیں جیسے کورونا وائرس اگر کبھی آیا بھی تھا تو اب اپنے گھر کو لوٹ چکا ہے۔
لیکن نہ معلوم کیوں سکول اب بھی ویران پڑے ہیں۔ بس سکولوں کے علاوہ ہر جگہ رونق ہے۔ کچھ پرائیویٹ سکولوں نے بڑے بچوں کو کبھی کبھی سکول آنے کی اجازت دی ہے لیکن سیاحوں کی طرح، تھوڑی بہت دیر کے لیے آؤ، یار دوستوں سے ملو اور اگر کچھ سمجھنا ہو تو ٹیچر کے بھی درشن کر لو، لیکن ملک بھر میں غریب بچوں کے لیے تعلیم کا سلسلہ آٹھ ماہ سے تقریباً پوری طرح رکا ہوا ہے۔
اور یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ جب باقی سارے کام ہو رہے ہیں، فیکٹریاں کھلی ہوئی ہیں، دکانوں پر صبح سے شام تک خریداروں کی بھیڑ لگی رہتی ہے، بازاروں میں ایسا لگتا ہےکہ سامان مفت میں تقسیم کیا جا رہا ہو، اتنی ٹریفک ہے کہ جگہ جگہ سڑکیں جام رہتی ہیں تو پھر سکول کھولنے سے ہی کون سی قیامت آجائے گی؟
مزید پڑھیں
-
انڈیا میں کورونا کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ سے متجاوزNode ID: 526046
ایسا نہیں ہے کہ سکول کھولنے میں بالکل خطرہ نہیں ہے لیکن سکول بند رکھنے سے ہی کیا بچوں کی حفاظت ہو رہی ہے؟ ایسا کون سا کام ہے جو وہ نہیں کر رہے۔ میں ایک ہفتے سے مغربی اتر پردیش کے کچھ دیہی علاقوں میں سفر کر رہا تھا اور میں نے شدید سردی میں بچوں کو وہ سب کرتے دیکھا جو انہیں کبھی نہیں کرنا چاہیے، بچے گھروں میں بے کار بیٹھے ہیں اور غریب ماں باپ انہیں کام پر لگا رہے ہیں۔ اور اب خطرہ یہ ہے کہ تعلیم سے ان کا رشتہ ہمیشہ کے لیے ٹوٹ سکتا ہے۔
صرف انڈیا میں تقریباً 30 کروڑ بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے۔ 60 لاکھ بچے پہلے سے ہی تعلیم سے محروم تھے اور بے روزگاری اور غربت میں اضافے کی وجہ سے ان کی تعداد میں اضافہ تقریباً طے ہے۔
سکولوں کی حالت پر جاری کی جانے والی ایک سالانہ رپورٹ ( اینوئل سٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ) کے مطابق سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد چار فیصد سے بڑھ کر ساڑھے پانچ فیصد ہوگئی ہے۔ سب سے زیادہ اضافہ، تقریباً تین گنا، چھ سے دس سال کی عمر کے زمرے میں ہوا ہے اور ایک مرتبہ ان بچوں کا سکول چُھوٹا تو پھر کیا امکان ہے کہ وہ تعلیم کی ڈور دوبارہ پکڑ پائیں گے۔
اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ آن لائن تعلیم مسئلے کا حل ہے تو آپ کسی گاؤں میں تھوڑا وقت گزاریے۔ انڈیا میں تقریباً 40 فیصد بچوں کو سمارٹ فون تک رسائی حاصل نہیں ہے، اگر فون ہے تو انٹرنیٹ کی سپیڈ خراب ہے، کہیں بجلی نہیں ہے اور کہیں کوریج۔ لیکن یہ مسائل بھی صرف ان 11 فیصد بچوں کے لیے ہی ہیں جن کے سکولوں میں کسی قسم کی آن لائن کلاسز ہو رہی ہیں۔ باقی ان پریشانیوں سے آزاد ہیں۔
تو سوال یہ ہے کہ ہونا کیا چاہیے؟ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی فہرست میں بچے سب سے نیچے ہیں۔ سویڈن سمیت دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جنہوں نے کبھی سکول بند ہی نہیں کیے یا کم سے کم زیادہ وقت کے لیے نہیں۔ لیکن یہ چھوٹے ممالک ہیں اور انڈیا جیسے بڑے ممالک کے لیے ضروری نہیں کہ ان کا ماڈل کام کرے۔
