Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سب اپنی اپنی پوزیشن پر جمے ہوئے ہیں

وزیراعظم کے مطابق حکومت میں آنے کے بعد تین ماہ سیکھنے میں لگے۔ فوٹو: اے ایف پی
آپ کو ضرورعلم ہونا چاہیے کہ جو کچھ آج کل پاکستان میں ہو رہا ہے وہ تاریخ کے حوالے سے کچھ نیا نہیں۔ اس سے پہلے بھی ملکوں کی تاریخ میں ایسا ہوا ہے کہ جب دو قوتیں آمنے سامنے آ گئیں، جن میں سے ایک عوام کے زور بازو کی داعی ہوتی ہے، دوسری جبر کی شائق ہوتی ہے، ایک عوام کے جذبات کو ابھارتی ہے، ان میں محرومیوں کا احساس جگاتی ہے اور دوسری ان کو خواب غفلت میں سلا دیتی ہے۔
ایسے میں نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ ہے ایک دلچسپ مطالعہ۔ 
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ عوام کی قوت کو دبایا جا سکتا ہے، ڈرایا جا سکتا ہے، دھمکایا جا سکتا ہے لیکن یہ جبر دائمی نہیں ہو سکتا۔ طاقت کا توازن کسی نقطے پر جا کر بدل جاتا ہے، وقت کے ترازو کو کسی بھاری پلڑے میں جھکنا ہوتا ہے۔
اس کے تاریخی شواہد تلاش کرنے سے پہلے اپنے ہاں درپیش معرکہ پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے کہ یہاں کون کس سے دست و گریباں ہے۔ 
پی ڈی ایم کا اتحاد قائم ہے۔ پی ڈی ایم پورے ملک میں جلسے کر چکی ہے، استعفوں کی دھمکی دے چکی ہے، ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگ چکا ہے، جلسوں میں وہ باتیں ہو چکی ہیں جن کا اس ملک میں تصور بھی نہیں تھا، طاقتوروں کے خلاف فلک شگاف نعرے لگ چکے ہیں، عوام کی محرومی کا منترا پڑھا جا چکا ہے۔
جلسوں میں توقف آیا تو مہنگائی مارچ کے نام پر نیا لائحہ عمل سامنے آ چکا ہے۔ قریہ قریہ لوگ حکومت سے اختلاف کا اظہار کر چکے ہیں۔ جلسہ جلسہ بات آگے بڑھ چکی ہے۔ 
پی ڈی ایم ان سرحدوں کو چھو رہی کہ اب ٹکراؤ لازمی دکھائی دیتا ہے۔ لوگ گرفتاریوں، غداری کے الزامات، کرپشن کی راگنی اور کفر کے فتوؤں سے عاجز آ چکے ہیں، اب وہ اصل تبدیلی چاہتے ہیں اور جلد چاہتے ہیں۔ اس خواہش کا اظہار ہر جلسے میں برملا ہوتا ہے۔ 

 پی ڈی ایم نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ فوٹو: ٹوئٹر

دوسری جانب حکومت کے پاس نہ کارکردگی ہے، نہ عوام کی تائید ہے مگر پھر بھی وہ اقتدار میں رہنے پر مصر ہے۔ 
اس حکومت کو لانے والے پشیمان بھی ہیں اور حیران بھی۔
پشیمان اس لیے کہ جو ملک کی معیشت کی بدحالی کا الزام ان کے سر آ رہا ہے، اور حیرانی اس بات پر ہے کہ ایسا تو پہلے بھی اس ملک میں ہو چکا ہے تب تو لوگوں کو شعور نہیں آیا تھا، تب تو لوگ اس طرح احتجاج کے لیے نہیں نکلے تھے، تب تو اس قدر شور نہیں اٹھا تھا۔ یہ سب اتنی سرعت سے ہو رہا ہے کہ اس پر کچھ لوگوں کی ہوائیاں اڑ گئی ہیں۔ 
دوسری جانب وزیراعظم روز بہ روز غلطیاں کر رہے ہیں، وہی کرپشن کرپشن کا راگ الاپ رہے ہیں۔
ڈھائی برس کی کارکردگی صفر ہے، ڈھائی برس کی کاوش کا نتیجہ تھکن ہے، حکومت کے دعوے اب گرد ہو چکے ہیں۔ یہ حکومت اس ملک کے عوام کی سب سے بڑی بھول بن گئی ہے۔
اب اپوزیشن اس حکومت کو تسلیم کرنے پر رضامند نہیں، حکومت رخصت ہونے کو تیار نہیں تو اب کیا ہوگا۔ سب اپنی اپنی پوزیشن پر جمے ہوئے ہیں، ایک دوسرے کے مخالف ڈٹے ہوئے ہیں، آمنے سامنے کھڑے ہوئے ہیں۔ 

پی ڈی ایم نے جنوری میں لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جب دنیا کے کسی ملک میں ایسے حالات ہوتے ہیں تو یہ حالات خود کوئی حل پیش کرتے ہیں، اس کا تعلق کسی نعرے، کسی فلسفے اور کسی ازم سے نہیں ہوتا۔ ایسے میں حل خود رو ہوتے ہیں، فطری ہوتے ہیں۔ ان میں شدت ہوتی ہے اور بے پناہ ہوتی ہے۔  
اس وقت پاکستان میں یہی صورت حال ہے۔ دو آمنے سامنے کھڑی قوتوں میں سے کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
ٹکراؤ اور تصادم حقیقت بن چکا ہے، عوام کی اکثریت سوچ کی ایک خاص سطح تک پہنچ چکی ہے، ایک خاص زاویہ ان کے ذہن میں پنپ چکا ہے۔ ایسے میں اگر کسی ایک نے پسپائی اختیار نہ کی تو معاملات کی باگ کسی کے ہاتھ میں نہیں رہے گی۔
اس سے پہلے کہ کوئی خوف ناک واقعہ سر اٹھائے ہمیں تاریخ سے سبق سیکھ لینا چاہیے، وقت کی رفتار کو پہچان لینا چاہیے کیوں کہ ایسا واقعہ کہیں بھی کسی بھی وقت ہو سکتا ہے، یہی نوشتہ دیوار ہے، یہی تاریخ کا سبق ہے، یہی وقت کی آواز ہے۔

شیئر: