تنازعات کی زد میں رہنے والے سی سی پی او لاہور عمر شیخ تبدیل
تنازعات کی زد میں رہنے والے سی سی پی او لاہور عمر شیخ تبدیل
جمعہ 1 جنوری 2021 13:01
قومی اسمبلی کی کمیٹی میں عمر شیخ کو سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا (فوٹو: پنجاب پولیس)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے سی سی پی او عمر شیخ کو تبدیل کر دیا گیا ہے اور ان کی جگہ غلام محمود ڈوگر کو بطور سی سی پی او لاہور تعینات کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ برس ستمبر میں سیالکوٹ لاہور موٹروے پر گجرپورہ کے قریب ایک خاتون کے ساتھ زیادتی اور ڈکیتی کا واقعہ پیش آیا تھا جس کے بعد خاتون کے حوالے سے ایک متنازع بیان دینے پر سابق سی سی پی او لاہور عمر شیخ کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
سی سی پی او لاہور عمر شیخ کو چار ماہ قبل تعینات کیا گیا تھا۔ جمعہ کو لاہور پولیس کے ترجمان نے انہیں عہدے سے ہٹانے کی تصدیق کی ہے۔
تبدیل ہونے والے سی سی پی او عمر شیخ ستمبر کے مہینے میں لاہور میں تعینات کیے گئے تھے۔ ان کی تعیناتی سیالکوٹ موٹروے پر خاتون کے ساتھ پیش آنے والے زیادتی کے واقعے کے بعد کی گئی تھی۔
انہیں اس غرض سے لاہور پولیس کا سربراہ لگایا گیا تھا کہ وہ جرائم پر قابو پائیں گے تاہم ان کی تعیناتی کے ساتھ ہی ان کے کئی متنازع بیانات سامنے آنا شروع گئے۔
موٹروے زیادتی کیس کے حوالے سے بیان پر تنازع
ان کا پہلا متنازع بیان خواتین کے گھروں سے اپنے محرم کے بغیر نکلنے سے متعلق تھا، بعد میں انہوں نے اس بیان کی معافی بھی مانگی تھی۔
اپنے ان بیانات کے بعد عمر شیخ نے میڈیا کے ساتھ روابط ختم کر دیے تھے۔ تین ماہ بعد ہی ان کی کارکردگی سے متعلق سنجیدہ سوالات اٹھنا شروع ہو گئے تھے۔
انہوں نے اپنی تعیناتی کے دوران کئی جونیئر پولیس افسران کو گرفتار کروایا اور ان کے خلاف تادیبی کارروائی بھی کی۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک انٹرویو میں عمر شیخ کی تعیناتی کی وجہ اپنے قریبی عزیز کی زمین پر قبضہ چھڑوانا بتائی تھی۔
لاہور پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ’سابق سی سی پی او لاہور عمر شیخ کی کارکردگی سے حکومت غیر مطمئن تھی۔ ان کی چار ماہ کی تعیناتی کے دوران جرائم کی شرح میں کمی نہ ہوئی بلکہ جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا۔‘
آئی جی پنجاب سے جھگڑا
اس کے علاوہ پولیس ڈسپلن ان کی اس تعیناتی سے خاصا متاثر نظر آیا۔ خیال رہے کہ ان کی تعیناتی کے بعد آئی جی پنجاب کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور بنیادی وجہ اس وقت کے آئی جی پنجاب شعیب دستگیر اور سی سی پی او لاہور عمر شیخ کے درمیان ایک اجلاس کے دوران ہونے والے جملوں کے تبادلے اور تلخ کلامی بتائی گئی تھی۔
اپنے عہدے سے ہٹائے جانے سے دو سے تین روز قبل عمر شیخ نے اپنی کارکردگی کی رپورٹ خود سے ہی جاری کی تھی۔ اس میں انہوں نے اپنے تین ماہ کی مدت کے دوران جرائم کے خلاف کیے جانے والے اقدامات اور جرائم کی شرح سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی تھی۔
تاہم ان کی اس رپورٹ کو پریس میں اس طرح سے پذیرائی نہیں مل سکی جس طرح کی وہ توقع کر رہے تھے۔ اسی دوران لاہور ہائی کورٹ میں ایک مقدمے میں بھی جرائم کے بڑھنے پر ان کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے گئے۔
عمر شیخ نے عدالت سے اپنی کارکردگی جانچنے کے لیے کسی آزاد ذریعے سے سروے کروانے کی استدعا کی تھی تاہم ان کی یہ درخواست منظور نہیں ہوئی تھی۔
عمر شیخ کی تعیناتی کے ساتھ ہی لاہور ہائی کورٹ میں ان کی تعیناتی کے خلاف ایک درخواست دائر کر دی گئی تھی جس کی سماعت ابھی بھی عدالت میں چل رہی ہے۔ اس سماعت کے دوران عمر شیخ خود بھی عدالت میں پیش ہوتے رہے۔
قومی اسمبلی کی کمیٹی میں تنازع
ان کی تعیناتی کے دوران ہی انہیں قومی اسمبلی کی ایک کمیٹی کے روبرو پیش ہونا پڑا لیکن وہ کمیٹی کے اجلاس میں پہلے نوٹس پر پیش نہ ہونے ہوئے جس کی وجہ سے ان کو سمن جاری کیے گئے۔
عمر شیخ اس کے بعد کمیٹی کے روبرو پیش ہوئے تو ان کی کارکردگی پر سخت سوالات اٹھائے گئے۔ انہوں نے کمیٹی کے اجلاس میں ارکان کے سخت سوالات پر ہاتھ جوڑ کر پنجابی میں کہا کہ ’مینوں معاف کر دیو‘ یعنی ’مجھے معاف کر دیں۔‘
صوبہ پنجاب کی اپوزیشن کے بعد مسلم لیگ ن نے عمر شیخ کی تعیناتی کے پہلے روز سے ہی ان کی تعیناتی کے خلاف سخت آواز اٹھائی تھی۔
مسلم لیگ ن کا موقف تھا کہ عمر شیخ کی تعیناتی سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہے اور اس کا مقصد مسلم لیگ ن کو لاہور میں کمزور کرنا اور ان کی قیادت کو گرفتار کرنا ہے، تاہم عمر شیخ نے ان بیانات کی تردید کی تھی۔