لیکن فرق یہ ہے کہ 2016 میں ’ال نینو‘ واقعہ کا مشاہدہ کیا گیا تھا، یہ ایک فطرتی امر ہے جو درجہ حرارت میں اضافےکا سبب بنتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق اگر 2020 میں بھی ال نینو کا واقعہ ہوا ہوتا تو اس میں اوسط درجہ حرارت 0.1 اور 0.2 ڈگری زیادہ ہوتا۔
یورپ میں ریکارڈ
2020 میں یورپ کے اندر درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا، جس نے 2019 کے درجہ حرارت کے ریکارڈ کو بھی توڑ دیا۔ کوپرنیکس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ گذشتہ دہائی گرم ترین دہائی تھی۔
عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا تعلق ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں میں اضافے کی وجہ سے ہے۔ ان میں سب سے خطرناک کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے، جو کوئلے، تیل اور گیس کے جلنے سے وجود میں آتی ہے۔
کم سے کم حد کا تعین
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2020 میں عالمی درجہ حرارت میں 1.25 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہوا جو 1900 سے 1985 تک کے صنعتی انقلاب کے بعد سب سے زیادہ اضافہ ہے۔
سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات سے بچنے کے لیے عالمی درجہ حرارت کی حد بندی 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے 2.7 سینٹی گریڈ تک ہونی چاہیے۔
اس کے علاوہ یورپی ماحولیاتی ادارے نے نوٹ کیا ہے کہ آرکٹک اور سائبیریا کے کچھ حصوں کےدرجہ حرارت میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔
برف کی چوٹیاں ختم ہورہی ہیں
قطب شمالی میں سمندری برف کا احاطہ ختم ہوتا جا رہا ہے، جولائی اور اکتوبر کے مہینوں میں سمندری برف کے سب سے کم ذخائر بچے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں مزید سمندری طوفانوں، آگ، سیلاب اور دیگر آفات کا سبب بن سکتی ہیں۔
امریکی ماحولیاتی انتظامیہ کے آب و ہوا کے سائنس دان ایڈم سمتھ کا بھی کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جانوں اور مادی نقصانات کی لاگت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔