Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوگل کی نئی کوانٹم چپ، ’10 سیپٹیلین سال کا مسئلہ 5 منٹ میں حل کر سکتی ہے‘

ان پروسیسرز کو سانتا باربرا، کیلیفورنیا میں ایک نئے مقصد کے لیے تیار کردہ سینٹر میں تیار کیا جا رہا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
امریکی ٹیکنالوجی کمپنی گوگل کا کہنا ہے کہ انہوں نے ناقابل یقین حد تک رفتار سے کام کرنے والی کمپیوٹر چپ کے ذریعے کوانٹم کمپیوٹنگ میں ایک اہم سنگ میل عبور کر لیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پیر کو گوگل کوانٹم کمپیوٹنگ لیب نے ’وِلو‘ نامی کوانٹم کمپیوٹنگ چپ متعارف کروائی جو کمپیوٹنگ کے پیچیدہ مسائل کو پانچ منٹ سے بھی کم وقت میں انجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
گوگل کا دعویٰ ہے کہ کمپیوٹنگ کے ایسے مسائل جنہیں حل کرنے میں ایک تیز ترین سُپر کمپیوٹر کو 10 سیپٹلین سال (ایک کے ساتھ 24 صفر) لگیں گے وہ مسائل یہ چپ پانچ منٹ میں حل کر سکتی ہے۔ 
واضح رہے 10 سیپٹیلین سال (10,000,000,000,000,000,000,000,000) کائنات کے وجود سے بھی طویل عرصہ ہے۔ 
گوگل کے لیے یہ 2019 کے بعد ایک بہت بڑی کامیابی ہے جب گوگل نے اعلان کیا تھا کہ سُپر کمپیوٹر پر 10,000 سال کے مقابلے میں ان کا کوانٹم پروسیسر ایک ریاضی کے مسئلے کو تین منٹ میں حل کر سکتا ہے، گوگل کی حریف کمپنی آئی بی ایم  نے اس وقت اس دعوے سے اختلاف کیا تھا۔
گوگل کا کہنا ہے کہ اس چپ کے نتائج ان تھیوریز کی حمایت کرتے ہیں جو کہتی ہیں کہ کوانٹم کمپیوٹنگ متوازی کائناتوں (پیرالیل یونیورسس) کی ملٹی ورس میں داخل ہو سکتی ہے۔
’وِلو‘ نامی اس نئی چپ میں 105 ’کوئبِٹس‘ موجود ہیں جنہیں کوانٹم مشینوں کے بلڈنگ بلاکس کہا جاتا ہے۔ 
عام کمپیوٹرز میں بِٹس کا استعمال ہوتا ہے جنہیں ہم ones and zeros کہتے ہیں، بٹس ایک وقت میں یا تو 1 کی صورت میں ہوں گی یا 0۔  
کوانٹم کمپیوٹنگ میں استعمال ہونے والے  کوئبٹس  میں ایسا نہیں ہوتا، کیوبٹس ون اور زیروز کی مختلف سُپر پوزیشنز میں بھی ہو سکتے ہیں۔ یہی چیز ان کو عام کمپیوٹر سے تیز بناتی ہے۔
کوئبٹس بہت تیز رفتار کے حامل ہوتے ہیں لیکن اتنی ہی جلدی خرابی کا شکار بھی ہو سکتے ہیں، یہاں تک کہ ایک چھوٹے ایٹمی ذرے سے بھی ان میں غلطی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ جتنے زیادہ کوئبٹس بڑھتے ہیں اتنی مشکلات بھی بڑھ سکتی ہیں۔
تاہم گوگل کے ریسرچرز نے اس پریشانی کا حل ڈھونڈ نکالا ہے اور نئی چپ کو ایسے پرواگرام کیا ہے جو حقیقی وقت میں غلطی سدھار سکتی ہے یعنی جتنے کوئبٹس بڑھتے جائیں گے غلطی کا امکان بھی کم سے کم ہوتا جائے گا۔
گوگل کے مطابق یہ ایک عملی کوانٹم کمپیوٹر بنانے کی طرف بڑا قدم ہے اور کمپنی کو امید ہے کہ ایسی ڈیوائسز ایک دن مصنوعی ذہانت اور میڈیسن جیسے شعبوں میں بہت زیادہ ترقی کر سکتی ہیں۔
اپنی  بلاگ پوسٹ میں گوگل نے لکھا کہ مثالی حالات میں بھی  ایک عام کمپیوٹر کو وِلو جیسے نتائج حاصل کرنے میں ایک ارب سال لگیں گے۔
ان پروسیسرز کو سانتا باربرا، کیلیفورنیا میں ایک نئے مقصد کے لیے تیار کردہ سینٹر میں تیار کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے گوگل کی حریف ٹیکنالوجی کمپنیوں نے بھی زیادہ کوئبٹس کے ساتھ چِپس بنانے پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے، لیکن گوگل کا کہنا ہے کہ پائیداری کو بہتر بنانا ہی ایک قابل عمل نظام کی طرف لے جائے گا۔

شیئر: