Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین ٹی وی میزبان ’ہاورڈ یونیورسٹی کی جعلی ملازمت‘ کا نشانہ بن گئیں

خاتون اینکر نے ’جعلی ملازمت‘ کی وجہ سے 21 سالہ ٹی وی کیریئر ختم کر دیا تھا (فوٹو: ٹوئٹر رازدان)
انڈین صحافی اور ٹیلی ویژن میزبان ندھی رازدان کا کہنا ہے کہ وہ ہاورڈ یونیورسٹی میں تدریس کی ملازمت سے متعلق منظم اور مربوط دھوکے بازی کا شکار ہوئی ہیں۔
گزشتہ برس جون میں انڈین چینل این ڈی ٹی وی کی ملازمت چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک امریکی ادارے میں تدریس سے وابستہ ہو رہی ہیں۔
ٹوئٹر پر معاملے کی تفصیل پر مبنی ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ’جون 2020 میں این ڈی ٹی وی کے ساتھ 21 برس گزارنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں صحافت کی استاد کے طور پر ہاورڈ یونیورسٹی جوائن کر رہی ہوں۔‘
مجھے یقین دلایا گیا تھا کہ میں ستمبر 2020 میں یونیورسٹی کا حصہ بن جاؤں گی۔ جنوری 2021 میں اپنی نئی ذمہ داری سنبھالنے کی تیاریوں کے دوران مجھے اندازہ ہوا کہ معاملے میں کئی انتظامی خرابیاں ہیں۔
ٹویٹ کے ساتھ اٹیچ کیے گئے طویل پیغام میں انہوں نے مزید لکھا کہ ’ابتدا میں ان خرابیوں کو میں نے نظرانداز کیا تھا بعد میں صورت حال بدلنے پر ہاورڈ میں اعلی ذمہ داران سے رابطہ کیا۔‘
ان کی جانب سے پوچھے جانے پر میں نے یونیورسٹی سے کیے گئے سابقہ رابطوں کی کچھ تفصیلات شیئر کیں۔ یونیورسٹی سے جواب ملنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ میں ایک منظم اور مربوط جعلسازی کا شکار ہوئی ہوں۔ مجھے یونیورسٹی کی جانب سے صحافت کے ایسوسی ایٹ پروفیسر بننے سے متعلق کوئی پیشکش موصول نہیں ہوئی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس معاملے کے پس پردہ افراد نے بہت چالاکی سے جعلسازی کی اور اس طرح میری ذاتی معلومات اور گفتگو تک رسائی حاصل کی، یہ امکان بھی ہے کہ انہیں میری ڈیوائسز اور میرے ای میل، سوشل میڈیا اکاؤنٹس تک رسائی میسر ہو۔

انڈین ٹی وی میزبان کے مطابق انہوں نے پولیس میں شکایت درج کرا دی ہے جب کہ ہاورڈ یونیورسٹی کی انتظامیہ سے بھی معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنے کا کہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران میں جن مختلف افراد اور اداروں سے رابطے میں رہی تھی انہیں اس معاملے سے آگاہ کیا ہے۔
رازدان کا کہنا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ پولیس ان کے ساتھ پیش آنے والے اس معاملے کی تہہ تک جلد پہنچے گی تاکہ اسے کسی انجام تک پہنچایا جا سکے۔
سوشل میڈیا پر اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات شیئر کرنے پر ایک جانب تو ان سے اظہار افسوس کیا جاتا رہا تو کچھ انہیں سابقہ پوزیشن پر دیکھنے کے خواہاں دکھائی دیے۔

کچھ صارفین نے معاملے کے دیگر پہلوؤں کا ذکر کیا تو لکھا کہ ’اس ٹویٹ کے بعد اب شاید کوئی مقامی چینل آپ کو صحافی کے طور پر ملازمت نہ دے‘۔

Caption

جوشوا بینٹن نامی ایک صارف نے اپنے جوابی پیغام میں لکھا کہ ہاورڈ میں کوئی سکول آف جرنلزم نہیں ہے نا ہی کوئی ایسا شعبہ اور پروفیسر ہیں۔

این ڈی ٹی وی کے پروگرام ’لیفٹ، رائٹ اینڈ سینٹر‘ کی میزبانی کرنے والے خاتون صحافی انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے علاقے کٹھوعہ میں زیادتی اور قتل کے واقعے کی رپورٹنگ پر ایک ایوارڈ بھی جیت چکی ہیں۔

شیئر: