جعلی لائسنس، معطل کیے گئے پاکستانی پائلٹس کے خلاف کیا کارروائی ہوگی؟
جعلی لائسنس، معطل کیے گئے پاکستانی پائلٹس کے خلاف کیا کارروائی ہوگی؟
اتوار 24 جنوری 2021 5:47
توصیف رضی ملک -اردو نیوز- کراچی
گذشتہ سال مئی میں کراچی میں ہونے والے پی آئی اے کے طیارے کے حادثے کے بعد وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے پارلیمنٹ کے فلور پر بیان دیا تھا کہ پی آئی اے کے بیشتر پائلٹس کی اسناد جعلی ہیں، انہوں نے 262 ایسے پائلٹس کی فہرست بھی فراہم کی تھی جسے ایوی ایشن ڈویژن نے مرتب کیا تھا۔
وزیر ہوابازی کے بیان پر بین الااقوامی ایئرلائنز اور ہوابازی کے اداروں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان میں ہوابازوں کی تربیت اور انڈسٹری میں حفاظتی انتظامات کے معیار پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہوئے پاکستانی ایئرلائنز اور پائلٹس پر پابندیاں عائد کردی تھیں، جو تاحال نافذ العمل ہیں۔
تاہم پائلٹس کی اسناد مشکوک قرار دینے کے بعد ملکی سطح پر کی گئی تحقیقات میں صرف 50 پائلٹس کے لائسنس مشکوک نکلے، البتہ اس سب کے پس منظر میں بہت سے پاکستانی لائسنس یافتہ پائلٹس کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے جو بیرون ممالک ایئرلائنز میں کام کر رہے تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق جن پائلٹس کی اسناد مشکوک یا جعلی ثابت ہوئی ہیں ان کے خلاف فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو کرمنل چارجز عائد کرنے کا کہا گیا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ عدالت کی جانب سے جعلی لائسنس کے حامل پائلٹس کے خلاف قانونی کارروائی اور بطور ملزم تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے، اس سے قبل پائلٹس کے لائسنس جعلی نکلنے کی صورت میں بس انہیں معطل کر کے گراؤنڈ کردیا جاتا تھا۔
سنہ 2018 میں سپریم کورٹ میں ہوابازوں کی جعلی اسناد کیس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے پائلٹس کے لائسنس معطل کیے جانے پر ان کے خلاف کیس ختم کردیا تھا۔
اس مرتبہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو مقدمہ دائر کرنے کا کہا ہے۔ ایف آئی اے کے طریقہ کار کے مطابق پہلے تحقیقات کر کے کیس مرتب کیا جائے گا پھر چارج شیٹ دائر ہوگی۔
تحقیقات میں جرم ثابت ہونے پر ان پائلٹس کے خلاف دھوکہ دہی، مجرمانہ غفلت کی دفعات420 اور 468 کے تحت مقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے۔
اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ متعدد پائلٹس نے عدالت میں اپیل دائر کر رکھی ہے اور ان کی اپیل پر فیصلے کے بغیر کارروائی کا حتمی طور پر آگے بڑھنا مشکل ہے۔
جب کہ تحقیقات میں 262 میں سے صرف 50 پائلٹس کی اسناد مشکوک قرار پائی گئی تھیں۔ اور مزید تحقیقات اور سکروٹنی کے بعد صرف 28 پائلٹس ایسے نکلے جن کے لائسنس مشکوک یا جعلی تھے۔ ان میں بھی بیشتر پرائیویٹ فلائنگ کلبز سے منسلک اور چارٹر طیاروں کے پائلٹس تھے۔
اس حوالے سے نجی فضائی کمپنی سکائی ونگز اور پائلٹس ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر عمران اسلم نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جن پائلٹس کے خلاف تادیبی کارروائی کا حکم دیا گیا ہے، ان کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہیں جہاز چلانا نہیں آتا یا انہوں نے بنا جہاز چلائے ہی لائسنس حاصل کرلیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’لائسنس حاصل کرنے کے لیے مجوز کردہ طریقہ کار خاصا پرانا اور پریشان کن ہوگیا ہے جس کی وجہ سے کچھ لوگ لائسنس کا اجراء کرنے والے ادارے کے ملازمین کی ملی بھگت سے مقررہ وقت سے قبل لائسنس حاصل کر لیتے ہیں۔‘
پاکستان کی قومی ایئرلائن پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے صرف سات پائلٹس ایسے ہیں جن کی اسناد مشکوک قراردی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ’ان تمام پائلٹس کو اسناد کی تحقیقات کا آغاز ہوتے ہی گراؤنڈ کردیا گیا تھا اور ان کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔ جو پائلٹس کلیئر کردیے گئے انہیں بحال کردیا گیا ہے۔‘
عمران اسلم کہتے ہیں کہ وزیر ہوا بازی کا بیان نہ صرف پائلٹس بلکہ اس پوری انڈسٹری پر خودکش حملے کے مترادف ہے۔ ’اس بیان کے بعد سے سینکڑوں پائلٹس کی نوکریاں داؤ پر لگ گئیں، پائلٹس ٹریننگ کی انڈسٹری ٹھپ ہو گئی جبکہ زرمبادلہ کی مد میں اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔‘
واضح رہے کہ اس تمام تحقیقات کے پس منظر میں پاکستانی فلائنگ سکول کے کاروبار کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے اور مشرقی وسطیٰ کے ممالک سے جتنے افراد پاکستانی فلائنگ سکولز سے ہوابازی کی تربیت لینے آتے تھے انہوں نے یہ کہہ کر آنا چھوڑ دیا کہ پاکستانی لائسنس سے انہیں بین الاقوامی ایئرلائن میں نوکری نہیں ملے گی۔
عمران اسلم نے مزید بتایا کہ ’کئی پائلٹس نے تو اپنا کورس ادھورا چھوڑ دیا کہ جب لائسنس یورپ میں تسلیم نہیں ہوگا تو اس کا فائدہ نہیں۔ پرائیویٹ فلائنگ سکولز اور نجی فلائنگ کلبز کے کاروبار کو اتنا نقصان کورونا لاک ڈاؤن سے نہیں ہوا جتنا حکومت پاکستان اور وفاقی وزیر کی غیرذمہ داری سے ہوا۔‘