ملائیشیا میں ایوی ایشن کے محکمے کی ہدایت پر گراؤنڈ کیے جانے والے پاکستانی پائلٹس نے پاکستان کی سول ایوی ایشن سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر ان کے لائسنسوں کی دوبارہ تصدیق کرکے ملائیشین حکومت کو بھیجی جائے تاکہ ان کی کمپنیاں انہیں ملازمت سے برخاست نہ کر دیں۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ملائیشیا کی ایک پرائیویٹ ایئر لائن کے ساتھ منسلک سینیئر پاکستانی پائلٹ نے بتایا کہ اس کا نام جعلی لائسنس والے پائلٹس کی فہرست میں نہیں ہے مگر اسے کل ہی اپنی کمپنی کی طرف سے گراؤنڈ کیے جانے کی اطلاع ملی ہے اور کل ہی اس نے پاکستان میں سول ایوی ایشن کو خط لکھ کر اپنے لائسنس کی تصدیق کی درخواست کی ہے۔
مزید پڑھیں
-
یورپ کے لیے پی آئی اے کی پروازوں کو تین دن کی اجازتNode ID: 489071
-
’چھ ماہ بعد بھی پروازیں بحال کروا لیں تو یہ کارنامہ ہوگا‘Node ID: 489286
-
پی آئی اے کی ریٹنگ ایک سٹار پر آگئیNode ID: 489511
یاد رہے کہ جمعرات کو ملائیشیا کے ایوی ایشن کے محکمے نے مقامی ایئر لائنز کے ان پائلٹس کو عبوری طور پر معطل کر دیا ہے جن کے پاس پاکستانی سول ایوی ایشن اتھارٹی کے جاری کردہ لائسنس تھے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے ہوابازی کے وفاقی وزیر غلام سرور خان کے پائلٹس کے جعلی یا مشکوک لائسنس کے حوالے سے بیان کے بعد دنیا بھر میں قومی ایئر لائن پی آئی اے اور پاکستانی پائلٹس کے حوالے سے فیصلے کیے جا رہے ہیں۔
پائلٹ نے ملازمت کو خطرے کے پیش نظر اپنا نام نہ شائع کرنے کی درخواست کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پی آئی اے کی فلائٹ اکیڈمی میں پانچ سال تک بطور انسٹرکٹر تعینات رہ چکے ہیں اور ایک اور پاکستانی نجی ایئر لائن میں ملازمت کرنے کے بعد ڈیڑھ سال قبل ملائیشیا آئے تھے۔
’کل ملا کر تقریبا تین ہزار 500 گھنٹے کی فلائٹس اور 13 سال کی سروس میرے کریڈٹ پر ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میری کمپنی میں چار اور پاکستانی پائلٹس ہیں اور ان سب کو بھی گراونٖڈ کر دیا گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ملائیشیا کی فضائی کمپنیوں میں درجن سے زائد پاکستانی پائلٹس خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور سب کی نوکری خطرے میں پڑ چکی ہے۔
پاکستانی پائلٹ کا کہنا تھا کہ ’اکر سول ایوی ایشن نے ہمارے لائسنسوں کی جلد تصدیق نہ کی تو ہماری کمپنیاں ہمیں ملازمت سے نکال دیں گی۔ پاکستان میں نوکری کے امکانات اب اور بھی کم ہو چکے ہیں، ان حالات میں ہم بے روزگار ہو کر کدھر جائیں گے۔‘
دنیا میں کہاں کہاں پاکستانی پائلٹس ہیں؟
وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران بتایا تھا کہ پاکستان میں کل 860 پائلٹس ہیں جن میں سے 107 غیرملکی ایئرلائنز کے لیے کام کر رہے ہیں۔

اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ملائیشیا میں موجود پاکستانی پائلٹ نے بتایا کہ سب سے زیادہ پاکستانی پائلٹس متحدہ عرب امارات میں ہیں جہاں 50 سے زائد پاکستانی پائلٹس خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے بعد ترکی میں 30 کے قریب پائلٹس ہیں جس کے بعد قطر اور ملائیشیا دونوں میں درجن سے زائد پائلٹس کام کر رہے ہیں۔
ان کے مطابق اس کے علاوہ سعودی عرب، اومان، بحرین اور افریقی ملک ایتھوپیا اور ساوتھ افریقہ میں بھی پاکستانی پائلٹس مختلف ایئرلائنز میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
ان ممالک میں سے ویتنام اور ملائیشیا نے پاکستانی پائلٹس کو گراونڈ کر دیا ہے جب کہ ساؤتھ افریقہ میں واحد پاکستانی پائلٹ کو بھی طیارہ اڑانے سے روک دیا گیا ہے۔
یورپین یونین ایوی ایشن کی سیفٹی ایجنسی نے پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کی پروازوں پر چھ ماہ کے لیے پابندی عائد کی ہے۔
ملائیشیا میں پاکستانی پائلٹ کا کہنا ہے کہ امریکہ، آسٹریلیا اور یورپ کے ممالک میں پاکستانی پائلٹس تب تک کام نہیں کر سکتے جب تک ان کے پاس اس ملک کی شہریت اور وہاں کا لائسنس نہ ہو۔
ایشیا اور افریقہ کے کچھ ممالک میں پاکستانی پائلٹس کو سول ایوی ایشن کے لائسنس کی بنیاد پر نوکریاں دی گئی ہیں مگر اب وہ سب خطرے میں ہیں۔
اب ٓحکومت نقصان میں کمی کیسے کر سکتی ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو سوچنا چاہیے کہ جتنا نقصان ہونا تھا اب ہو چکا، مزید نقصان سے بچنے کا یہی طریقہ ہے کہ جلد از جلد آزادانہ انکوائری کروائے تاکہ اصل مسئلے کی تہہ تک پہنچا جا سکے۔ ’چند لوگوں کی کوتاہی یا جعل سازی کی سزا دنیا بھر میں پاکستانی پائلٹس اور پیشہ ور افراد کو نہ ملے۔‘

ان کا دعویٰ تھا کہ چند ایک کے سوا باقی پائلٹس کے لائسنس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ ’اصل بات یہ ہے کہ میں تیرہ سال سے جہاز اڑا رہا ہوں اور ہر سال مجھے سول ایوی ایشن میں دوبارہ سے پیپرز دینے ہوتے ہیں اور سیمولیٹر پر ٹیسٹ بھی دینا ہوتا ہے۔ کیا میں ہر سال دھوکہ دہی کر سکتا ہوں؟‘
انہوں نے بتایا کہ چونکہ پائلٹس کے پاس کم وقت ہوتا ہے اس لیے کئی لوگوں نے اپنی فلائٹ کے دن ہی ٹیسٹ دیے ہیں اور قانون مٰیں ایسی کوئی پابندی نہیں کہ جس دن آپ فلائی کریں اس دن ٹیسٹ نہ دے سکیں۔ ’مگر اب ان تمام لوگوں کے ان پیپرز کو مشکوک قرار دیا جا رہا ہے جنہوں نے فلائٹ کے دن ہی تحریری امتحان دیا ہو چاہے فلائٹ رات کی ہو اور امتحان صبح کو دیا ہو۔‘
ان کے مطابق ’جس جگہ پائلٹس کا تحریری امتحان ہوتا ہے وہاں پہلے سب کی رجسٹریشن ہوتی ہے پھر وہاں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوتے ہیں جن کو ڈی جی سول ایوی ایشن خود دیکھ سکتے ہیں اس کے علاوہ کمرہ امتحان میں بھی ادارے کا ممتحن موجود ہوتا ہے۔ اس صورت میں اتنے بڑے پیمانے کی دھوکہ دہی کیسے ممکن ہے؟‘
