اس معاہدے میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔
معاہدے پر دستخط کے بعد متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی طرف سے مشترکہ بیان میں کہا گیا تھا کہ ’اس تاریخی سفارتی بریک تھرو سے مشرقِ وسطیٰ میں امن کو فروغ ملے گا۔ یہ معاہدہ تین رہنماؤں کی دلیرانہ سفارتکاری اور وژن کا ثبوت ہے۔ اس معاہدے سے ثابت ہوتا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل ایک نئے راستے پر چلنا چاہتے ہیں جس سے خطے کی بھرپور صلاحتیں بروئے کار آئیں گی۔‘
تاریخی معاہدے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کئی شعبوں میں تعاون کو مستحکم کرنے کے لیے معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں۔
سفارتی تعلقات معمول پر آنے کے ایک مہینے بعد گزشتہ سال اکتوبر میں امارات کی پہلی پرواز تل ابیب کے قریبی ایئرپورٹ بن گوریان پہنچی تھی۔ واپسی پر اتحاد ایئرویز کی پرواز میں اسرائیلی سیاحت کے ماہرین سوار ہوئے تھے جنہوں نے دو دن متحدہ عرب امارات میں گزارے تھے۔
متحدہ عرب امارات سے پہلے مصر اور اردن اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلق رکھنے والے واحد عرب ممالک تھے۔
اگست میں عرب امارات کے اعلان کے بعد بحرین، سوڈان اور مراکش نے بھی سفارتی تعلقات اور مواصلاتی رابطے استوار کرنے اعلان کر دیا تھا۔