سمندری تنازعات کے حل کے لیے ترکی اور یونان میں مذاکرات
ترکی اور یونان کے درمیان سمندری تنازعے کے باعث تعلقات کشیدہ ہیں۔ فوٹو: روئٹرز
ترکی اور یونان نے سمندری حدود کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے مذاکرات شروع کیے ہیں جو سنہ 2016 کے بعد اپنی نوعیت کے پہلے دو طرفہ مذاکرات ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات گزشتہ سال اس وقت سخت کشیدہ ہوئے جب ترکی نے یونانی جزیرے کے قریب متنازع پانیوں میں تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش کے لیے بحری جہاز بھیجا۔
نیٹو کے رکن دونوں ملکوں کے درمیان مسئلے پر سنہ 2002 سے 2016 تک مذاکرات کے 60 دور ہوئے تاہم دونوں اطراف نے ان کو سرکاری اور باضابطہ مذاکرات قرار دینے کے بجائے ابتدائی تحقیقی نوعیت کی بات چیت کہا۔
ماہرین نے ان مذاکرات سے کسی بھی طرح کے فوری نتائج اور بڑی توقعات وابستہ کرنے سے خبردار کیا ہے۔
قبرص کے پریو سنٹر میں ریسرچر ڈاکٹر زینوناس زیاراس نے عرب نیوز کو بتایا کہ یہ بات چیت اس نوعیت کے مذاکرات نہیں کہ جن کے اختتام پر ہم کسی معاہدے کی توقع کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات چیت کے ذریعے دوںوں فریق اپنی پوزیشن کا بتائیں گے اور اصل مذاکرات کے لیے ایجنڈا بنائیں گے۔ 'یہ دیکھا جائے کہ کیا کہ دونوں فریق مذاکرات کے لیے ایجنڈے کے نکات کو محدود کر کے سمندری حدود کے تنازعے تک ہی رکھ پائیں گے، جیسے کہ علاقائی پانیوں اور خصوصی اکنامک زونز تک، نہ کہ ان نکات کو بھی شامل کیا جائے جو ترکی چاہتا ہے جیسے کہ جزائر سے افواج کو نکالنا۔'
ڈاکٹر زینوناس زیاراس کے مطابق یہ مذاکرات ترکی نے شروع کیے اور گزشتہ موسم گرما میں تنازعے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئے۔ 'ترکی ان مذاکرات کے ذریعے اپنے طور پر اچھے رویے کو دکھانا چاہتا ہے کیونکہ امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ کے آنے سے اس کے مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔'
ان کے مطابق ترکی اس کوشش میں ہے کہ وہ مغرب، خاص طور پر امریکہ اور یورپ کو اپنے پارٹنر ہونے کے بارے میں یقین دلانا چاہتا ہے۔