پاکستان کی سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے جاری ہونے والے صدارتی آرڈینینس پر جمعیت علمائے اسلام ف کی درخواست پر وفاق سے جواب طلب کر لیا ہے۔
دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’ہم نے اپنے ملک میں اچھے سیاست دان بھی دیکھے ہیں۔ ہمیں سب سیاست دانوں کو ایک ترازو میں نہیں تولنا چاہیے۔ اکبر بگٹی اور غوث بخش بزنجو اپنے اصولوں پر ڈٹے رہنے والے سیاستدان تھے۔‘
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’عدالت پیسے لے کر ووٹ بیچنے والوں کا راستہ بند کر دے۔‘
مزید پڑھیں
-
سینیٹ انتخابات: حکومت کیا چاہتی ہے اور اپوزیشن کی مخالفت کیوں؟Node ID: 525856
-
سینیٹ انتخابات اوپن بیلیٹ سے کرانے کے لیے صدارتی آرڈیننس جاریNode ID: 538861
-
سینیٹ انتخابات: حکومت اور اپوزیشن کے پاس کون سی آپشنز باقی ہیں؟Node ID: 539046
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے پیر کے روز کیس کی سماعت کی۔
سوموار کے روز سماعت شروع ہوئی تو ماحول گزشتہ سماعتوں کی نسبت مختلف تھا۔ اس کی وجہ ریفرنس کی سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کا اجرا تھا۔
کئی دنوں سے پر سکون اپوزیشن جماعت کے وکیل اور دیگر فریقین خاصے متحرک دکھائی دے رہے تھے جیسے حکومت کی کوئی بڑی کمزوری ان کے ہاتھ لگ گئی ہو۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے دلائل کا آغاز کیا ہی تھا کہ وکیل جمیعت علماء اسلام پاکستان کامران مرتضیٰ نے عدالت کو بتایا کہ ’حکومت نے اوپن بیلٹ انتخابات کے لیے آرڈیننس جاری کردیا ہے۔ حکومت نے عدالتی کاروائی کا ذرا بھی احترام نہیں کیا۔ آج تک ایسی قانون سازی نہیں ہوئی۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’حکومت نے پتا نہیں کیسے الیکشن ترمیمی آرڈیننس جاری کر دیا ہے۔ حکومت کچھ بھی کر سکتی ہے حکومت کو کوئی نہیں روک سکتا۔ مفروضوں کی بنا پر آرڈینس جاری کیا گیا۔‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’آرڈیننس تو عدالتی رائے سے مشروط ہے۔ آرڈیننس عدالت میں چیلنج نہیں ہوا۔‘ کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ ’جمیعت علماء اسلام پاکستان نے الیکشن ترمیمی آرڈیننس چیلنج کر دیا ہے۔ صدارتی آرڈیننس میں حکومت نے پہلے سے ذہن بنا کر اسے عدالتی فیصلے سے مشروط کر لیا ہے۔ سپریم کورٹ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کے معاملے کا نوٹس لے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم اس معاملے پر اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں۔‘ جس کے بعد عدالت نے صدارتی آرڈینس کے خلاف جے یو آئی کی درخواست ابتدائی سماعت کے لیے منظور کر لی اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا۔
ریفرنس میں فریق سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ’آرڈیننس جاری کر کے عجیب و غریب حالات پیدا کیے گئے۔ عدالت کی رائے اگر حکومت سے مختلف ہوتی ہے تو آرڈیننس کا کیا ہوگا۔ صدارتی آرڈیننس کے دوسرے حصے میں کہا گیا سیاسی جماعت یا ان کا نامزد کردہ شخص درخواست دے کر بیلٹ پیپرز دیکھ سکتا ہے۔ ہماری رائے ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تحت ہوتے ہیں۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’عدالتی رائے حکومتی مؤقف سے مختلف ہوئی تو آرڈیننس ختم ہو جائے گا۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’حکومت نے صرف قیاس آرائیوں پر آرڈینس جاری کیا ہے۔ تاہم ہم حکومت کو آرڈیننس جاری کرنے سے روک تو نہیں سکتے۔ لیکن پھر بھی اس معاملے کو دیکھتے ہیں۔‘
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’اوپن بیلٹ کے ذریعے سینیٹ انتخابات کا انعقاد ووٹ کی خرید و فروخت کو روکے گا۔ اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخابات صاف اور شفاف ہوں گے۔‘
اس دوران چیف جسٹس نے سینیٹر رضا ربانی کو روسٹرم پر بلا لیا۔ اس موقع پر چیف جسٹس، اٹارنی جنرل اور رضا ربانی کے دوران دلچسپ مکالمہ ہوا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’رضا ربانی صاحب اگر یہ وجہ ہے اوپن بیلٹ سے انتخابات کی تو آپ اس کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ انتخابات صاف اور شفاف ہونے چاہیں۔ بد دیانت لوگوں کو منتخب نہیں ہونا چاہیے۔‘
رضا ربانی نے جواب دیا کہ ’کوئی بھی سیاسی جماعت شفافیت کے سوال پر اعتراض نہیں کر رہی۔ بنیادی سوال شفافیت کا نہیں ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت سینیٹ میں بدعنوان لوگوں کی نمائندگی کی حامی نہیں۔‘ چیف جسٹس نے کہا کہ پھر جمعرات کے دن کیا ہوا وہاں تو مختلف مؤقف اختیار کیا گیا۔ رضا ربانی نے کہا کہ ’میں سیاسی معاملے کی طرف آتا ہوں۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ دو بڑی سیاسی جماعتیں صدارتی ریفرنس کی سماعت میں فریق نہیں ہیں۔ رضا ربانی نے کہا کہ ’میں یہاں تصحیح کرنا چاہتا ہوں۔ سندھ حکومت کے ذریعے پیپلز پارٹی یہاں فریق ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’نہ حکومت سیاسی جماعت کی طرف سے بات کر سکتی ہے نہ سیاسی جماعت حکومت کی طرف سے۔‘ رضا ربانی نے کہا کہ حکومت جماعت سے الگ نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’یہ بڑی عجیب بات ہے ایڈووکیٹ جنرل سندھ پیپلز پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ میں یہاں پی ٹی آئی کی طرف سے نہیں وفاق کی نمائندگی کر رہا ہوں۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’اگر عدالت کی رائے نہ آئی تو سینٹ الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہی ہوگا۔ پریس کانفرنس میں کہا گیا عدلیہ پر حملہ کیا گیا ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ’میں آئین کے ڈھانچے کو سمجھنے کی کھوج میں ہوں۔ میں یہ تلاش کر ہا ہوں کہ آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اور وزراء سمیت دیگر انتخابات کا طریقہ کار خفیہ کیوں رکھا گیا ہے۔ ہم نے اپنے ملک میں اچھے سیاست دان بھی دیکھے ہیں۔ ہمیں سب سیاست دانوں کو ایک ترازو میں نہیں تولنا چاہیے۔
