Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’چور جب کوتوال ہو جائیں‘

دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک سنسکرت میں چور کے لیے کئی درجن الفاظ آئے ہیں۔ فوٹو: فری پِک
شہر والوں کا ہے خدا حافظ
چور جب کوتوال ہو جائیں
بات درست ہے کہ چوروں کی کوتوالی، ’بِلّی سے چِھیچھڑوں کی رکھوالی‘ جیسی ہے، مگر ہم چور سپاہی کی سیاست میں نہیں پڑتے، فقط لفظوں کی بات کرتے ہیں۔
دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک سنسکرت میں چور کے لیے کئی درجن الفاظ آئے ہیں، انہی میں سے ایک لفظ کور(चोर/cora) ہے جو ’چور‘ کی اصل ہے۔ وہ یوں کہ اکثر صورتوں میں حرف ’چ‘ اور ’ک‘ باہم بدل جاتے ہیں، جیسے انگریزی کا Milk جرمن زبان میں Milch ہے یا ’مکھن‘ جنوبی ایران میں ’کرے‘ اور شمالی ایران میں ’چرے‘ ہے، ایسے ہی سنسکرت کا ’کور‘ ہندی میں ’چور‘ ہے۔
عربی میں ’چوری‘ سرقہ کہلاتی ہے۔ ایک مشہور ماہر لغت کے مطابق ’’سَرقَہ‘ کے معنی خفیہ طور پر اس چیز کے لے لینے کے ہیں جس کے لینے کا حق نہ ہو۔‘

 

زمانہ جاہلیت کے جنگی معاشرے میں چوری کرنا دل گردے کا کام تھا، اسی لیے ’بہادری‘ سے متعلق رائج صفاتی ناموں میں’سراقہ‘ بھی شامل تھا۔ سراقہ کے لفظی معنی کثرت سے چوری کرنے والا ہیں، جب کہ اصطلاحی معنی دلیر اور بے خوف کے ہیں، یہی وجہ ہے کہ عہد قدیم میں بعض شرفاء کے نام بھی ’سراقہ‘ ملتے ہیں۔
صاحبان علم کی کاوش و کوشش کو اپنے نام و کام سے پیش کرنا بھی چوری کی تعریف میں داخل ہے۔ انگریزی میں یہ واردات Plagiarism اور عربی کی رعایت سے اردو میں ’ادبی سرقہ‘ کہلاتی ہے۔ جب کہ اردو ہی میں چوری کا مال ’مالِ مسروقہ‘ کہلاتا ہے۔
فارسی میں چور’دُزد‘ اور چوری کرنا ’دُزدیدن‘ ہے ۔ فارسی نے اپنے مزاج کے مطابق اس ناخوب لفظ سے بھی خوب صورت تراکیب تراش لی ہیں مثلاً ادبی چوری ’دُزدِ سُخن‘ ہے تو کنکھیوں سے دیکھنا ’دُزدیدہ نگاہی‘، بحری قزاق ’دزدِ دریائی‘ اور کفن چور ’کفن دوز‘ ہے۔ 

اردو میں ’جیل خانہ‘ کے ساتھ ساتھ اس کے مترادف الفاظ ’قید خانہ، بندی خانہ اور زندان‘ بھی رائج ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

’کفن دزد‘ سے علامہ اقبال کا ایک مشہور فارسی شعر یاد آ گیا جس میں انہوں نے ’لیگ آف نیشن‘ کو کفن چوروں کی انجمن قرار دیا تھا:
من اَزیں بیش نَدانم کہ کَفن دُزدِے چَند
بہرِ تقسیمِ قُبُور اَنجمَنے ساختہ اَند
یعنی میں اس (لیگ آف نیشن) کے بارے میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ یہ چند کفن چوروں کا گروہ ہے، جو اس لیے وجود میں آیا ہے کہ آپس میں قبریں تقسیم کر سکے۔ 
اسی ’دُزد‘ سے ’دُزد گیر‘ بھی ہے، جس کے معنی ہیں ’چور پکڑنے والا‘، جسے دوسروں لفظوں میں ’کوتوال‘ کہتے ہیں۔ لفظ ’کوتوال‘ فارسی ہے یا ہندی اس بارے میں اختلاف ہے۔
’کوتوال‘ کو ہندی الاصل قرار دینے والے دو مختلف دلیلیں پیش کرتے ہیں، اول یہ کہ ’کوتوال‘ لفظ ’کوٹ‘ یعنی قلعہ اور ’وال‘ یعنی محافظ سے مل کر بنا ہے، یوں کوٹ وال یا کوت وال کے معنی ہیں ’قلعہ کا محافظ‘۔ دوم یہ کہ ’کوتوال‘ درحقیقت ’کوتہ وال‘ ہے، جس کے معنی ’مالک کوتہ‘ ہیں۔ کوتہ اُن بندوقوں کو کہتے ہیں جو سپاہی اکھٹی کرکے ’کوتوالی‘ میں رکھ دیتے ہیں۔ ان دلائل کی روشنی میں بظاہر یہ لفظ ہندی معلوم ہوتا ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندی کی کسی قدیم کتاب میں ’کوٹوال‘ نہیں ملتا، جب کہ قدیم فارسی کتب میں ’کوتوال‘ موجود ہے۔ 

فارسی میں ’بَندی‘ کے معنی قیدی اور اسیر ہیں تو اردو میں ’بَندی‘ کے معنی لونڈی، باندی اور ملازمہ کے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

چور پکڑا جائے تو جیل جاتا ہے، یوں تو جیل انگریزی لفظ ہے مگر اردو نے ناصرف اسے اپنا لیا ہے بلکہ جیل سے ’جیل خانہ‘ بھی وضع کر لیا ہے، یقین نہ آئے ’آئی جی جیل خانہ جات‘ کے عہدے پر غور کر لیں۔ 
اردو میں ’جیل خانہ‘ کے ساتھ ساتھ اس کے مترادف الفاظ ’قید خانہ، بندی خانہ اور زندان‘ بھی رائج ہیں۔ ان میں ’قید‘ عربی لفظ ہے جس میں فارسی کا ’خانہ‘ لگایا گیا ہے، اردو میں اس قید سے لفظ ’قیدی‘ بنا گیا ہے جب کہ عربی میں اس کا مترادف ’مقید‘ ہے۔ اسے آپ سعدی شیرازی سے مستعار فیض احمد فیض کے مشہور مصرع میں دیکھ سکتے ہیں ’سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد‘۔
پرتگیزی زبان میں قید خانے کو ’کدیا /cadeia‘ کہتے ہیں، صاف ظاہر ہے کہ یہ ’قید‘ سے متعلق ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل قید کی نسبت سے’عزم شاکری‘ کا خوبصورت شعر ملاحظہ کریں:
زندگی میری مجھے قید کیے دیتی ہے
اس کو ڈر ہے میں کسی اور کا ہو سکتا ہوں
سنسکرت میں باندھنے اور جکڑنے کو بندھ (बन्ध) کہتے ہیں، اسی ’بندھ‘ سے ہندی کا ’بندھن‘ ہے جو گرہ اور گانٹھ کے علاوہ اُس ڈوری یا فیتے کو بھی کہتے ہیں جو باندھنے کے کام آئے۔ اب ’بندھ‘ اور ’بندھن‘ کے ساتھ فارسی کے ’بند‘ اور انگریزی Band اور Bond پر غور کریں آپ کو یہ سب الفاظ ایک ہی بندھن سے بندھے دکھائی دیں گے۔
فارسی کے’بند‘ سے لفظ ’بندہ‘ اور بندگی بنے ہیں۔ ان دونوں لفظوں میں بندھے ہونے کا تصور موجود ہے، اسی لیے ان کے معنی میں غلام، نوکر، ملازم، نیازمند اورعبادت گزارشامل ہیں۔
اب اس ’بند‘ سے بنے لفظ ’بَندی‘ سے متعلق ایک دلچسپ بات ملاحظہ کریں اور وہ یہ کہ فارسی میں ’بَندی‘ کے معنی قیدی اور اسیر ہیں تو اردو میں ’بَندی‘ کے معنی لونڈی، باندی اور ملازمہ کے ہیں، جب کہ ہندی زبان میں’بَندی‘روک اور ممانعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ذرا سے غور کرنے پر ان تینوں زبانوں کے بظاہر مختلف معنوں میں مشترکہ مفہوم ’پابندی‘ صاف نظر آجاتا ہے۔ یوں ’بندی خانہ‘ کا مفہوم سمجھنے میں مشکل نہیں ہوتی۔   
لفظ ’زندان‘ سے متعلق پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ ’زندان’ کو ’زندہ‘ سے نسبت ہے۔ اصلاً یہ لفظ ’زندہ دان‘ تھا جو قاعدہ ادغام کے نتیجے میں’زندان‘ ہوگیا، یوں اس کے معنی ہوئے وہ جگہ جہان زندہ رکھا جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ قدیم زمانے میں مخالف قوم و قبیلے کو غلبہ پانے کی صورت میں قتل کردیا جاتا تھا، بہت بعد میں قید کررکھنے کا تصور پیدا ہوا تو گویا انہیں بجائے قتل کے ’زندگی‘ بخش دی گئی، یوں جس مقام پر ان قیدیوں رکھا گیا وہ ’زندان‘ کہلایا۔ اب اس  زندان کی نسبت سے مجروح سلطان پوری کا شعر ملاحظہ کریں:
روک سکتا ہمیں زندان بلا کیا مجروحؔ
ہم تو آواز ہیں دیوار سے چَھن جاتے ہیں

شیئر:

متعلقہ خبریں