اہلیہ اور بچوں کے اقاموں کی تجدید اور خروج وعودہ کیسے؟
اہلیہ اور بچوں کے اقاموں کی تجدید اور خروج وعودہ کیسے؟
جمعرات 25 فروری 2021 0:41
ارسلان ہاشمی ۔ اردو نیوز، جدہ
محکمہ پاسپورٹ ’جوازات‘ کے قانون کے مطابق تارکین کے اہل خانہ جنہیں عربی میں ’مرافقین‘ کہا جاتا ہے میں اہلیہ اور بچے شامل ہیں: فوٹو ایس پی اے
سعودی عرب میں رہنے والے غیر ملکی تارکین جو اپنے اہل خانہ کے ہمراہ مقیم ہیں کی رہائشی دستاویزات کے لیے قانون کے مطابق سربراہ اپنے اہل خانہ کا کفیل ہوتا ہے۔
اہلیہ اور بچوں کے اقاموں کی تجدید اور خروج وعودہ کے علاوہ دیگر قانونی معاملات براہ راست سربراہ خانہ اپنے ابشر اکاؤنٹ سے کرنے کا مجاز ہے۔
مملکت کے رہائشی قانون کے مطابق فیملی کے ساتھ رہنے والے تارکین کے ابشر اکاؤنٹ میں ان کے زیر کفالت افراد کی تمام تفصیلات درج ہوتی ہیں۔
ابشر پورٹل میں موجود تفصیلات میں اقامہ نمبر، ایکسپائری کی تاریخ، پاسپورٹ نمبر اور اس کی ایکسپائری کی تاریخ کے علاوہ کتنی بار کب اور کہاں مملکت سے سفر کیا گیا۔
یہ تمام تفصیلات اس وقت تک ابشر پورٹل میں محفوظ رہتی ہیں جب تک غیر ملکی کارکن مملکت میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ مقیم ہے۔
محکمہ پاسپورٹ ’جوازات‘ کے قانون کے مطابق تارکین کے اہل خانہ جنہیں عربی میں ’مرافقین‘ کہا جاتا ہے میں اہلیہ اور بچے شامل ہیں۔
مرافقین کو اس امرکی اجازت نہیں ہوتی کہ وہ اجرت یا بغیر اجرت کام کریں یہ وضاحت ان کے اقامہ پر درج کی جاتی ہے تاکہ خلاف ورزی کے مرتکب نہ ہوں۔
جوازات کے قانون کے مطابق مرافقین میں لڑکوں کے لیے عمر کی حد 25 برس رکھی گئی ہے۔ جن کا پیشہ طالب علم لکھا جاتا ہے۔
رہائشی قانون کے مطابق مرافق اقامہ میں لڑکوں کےلیےعمر کی حد 25 برس مکمل ہونے پر لازمی ہے کہ ان کا اقامہ کسی بھی کمپنی یا کفیل کے پاس منتقل کروایا جائے کیونکہ 25 برس سے زائد عمر کے لڑکوں کا مرافق کے طور پر اقامہ تجدید نہیں کیا جاتا۔
اس ضمن میں جوازات کا کہنا تھا کہ 25 برس عمر کی قانونی حد طالب علم کے لیے رکھی گئی ہے۔
اس دوران طالب علم گریجویشن مکمل کر لیتے ہیں جو طلبا اعلی تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں وہ فائنل ایگزٹ پر مملکت سے چلے جاتے ہیں۔
ایسے افراد جو مملکت میں رہنا چاہتے ہیں ان کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنا اقامہ کسی دوسری جگہ ٹرانسفرکرائیں اور پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کریں۔
بیٹی کے لیے رہائشی قانون مختلف ہے اس حوالے سے جوازات کے سسٹم میں اقامہ کی تجدید کے وقت بیان حلفی جمع کرانا ہوتا ہے جس میں اس امر کا اقرار ہوتا ہے کہ بیٹی شادی شدہ نہیں ہے۔
لڑکی کی جب تک شادی نہیں ہوجاتی وہ اپنے والدین کے ساتھ رہ سکتی ہے تاہم شادی کے بعد یہ لازمی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے اقامہ پر منتقل ہو جائے۔
جوازات کے قانون کے مطابق بیٹی کی شادی ہونے پر وہ اپنے شوہر کے اقامہ پر منتقل ہو جاتی ہے جس کے بعد لڑکی کے والد کے ابشر اکاؤنٹ سے لڑکی کو نکال دیاجاتا ہے تاکہ ’مرافقین ‘ پر عائد فیس شمار نہ کی جائے ۔
یہاں ایک امر کا بھی خیال رکھا جائے کہ والد کے ساتھ مقیم لڑکے کا اقامہ تجدید کرانے کے لیے اس کے طالب علم ہونے کا ثبوت بھی فراہم کرنا لازمی ہے جس کے لیے سکول کا سرٹیفکیٹ ہونا ضروری ہے۔
بچہ اگر مملکت کے کسی رجسٹرڈ سکول میں زیر تعلیم ہے تو وہاں سے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد اسے وزارت تعلیم سے تصدیق کرانا ہوتا ہے۔
اگر تعلیم کا سلسلہ مملکت سے باہر ہے تووہاں کے مستند رجسٹرڈ تعلیمی ادارے کے سرٹیفکیٹ کو وزارت خارجہ اور بعدازاں اس ملک میں قائم سعودی سفارت خانے سے تصدیق کرانے کے بعد سعودی عرب میں وزارت خارجہ سے اس کی تصدیق ہوتی ہے جو اقامہ تجدید کے لیے ضروری ہے۔