Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا سعودی عرب میں آزاد ویزے کے حوالے سے کوئی قانون ہے؟

کمپنیوں کی طلب کے مطابق ورک ویزے جاری کیے جاتے ہیں: فائل فوٹو فری پکس
سعودی عرب گزشتہ کئی دہائیوں سے غیر ملکیوں کے لیے کافی اہمیت کا حامل رہا ہے۔
سعودی عرب میں ہونے والی تیز رفتار ترقی کے باعث یہاں افرادی قوت کی طلب بھی ہمیشہ سے ہی رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان سمیت مختلف ممالک سے بڑی تعداد میں لوگ مملکت میں کام کرنے کے خواہاں ہیں۔ 
مملکت میں کام کرنے والے غیر ملکیوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ کسی سعودی شخص یا کمپنی کے تابع ہوں جس کے تحت ان کے لیے اقامہ اور ورک پرمٹ جاری کیا جاتا ہے۔ 
ورک ویزا
سعودی وزارت افرادی قوت وسماجی بہبود آبادی مملکت کے نجی اور حکومتی شعبوں کی طلب کے مطابق بیرون ملک سے افرادی قوت درآمد کرنے کے لیے ورک پرمٹ (ویزے) جاری کرتی ہے۔  
کمپنیوں کی طلب کے مطابق ورک ویزے جاری کیے جاتے ہیں جسے ان ممالک میں جہاں کے لیے ویزے جاری ہوتے ہیں ارسال کیا جاتا ہے۔  
ویزے منظور شدہ ایجینسیز کو ارسال کیے جاتے ہیں جن کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ’طلب ‘ کے مطابق کارکنوں کا ٹیسٹ لے کر انہیں مملکت روانہ کریں۔ 
ورک ویزے کا بنیادی قانون 
سعودی عرب میں قانون کے مطابق ورک ویزے پر آنے والے غیر ملکیوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ جس سپانسر کی زیرکفالت آئے ہیں ان کے پاس ہی کام کریں۔
خیال رہے کہ آئندہ ماہ 14 مارچ 2021 سے تبدیل ہونے والے قوانین میں سپانسر کی زیرکفالت  کے حوالے سے شرط ختم کر دی جائے گی اس کے بجائے معاہدہ ملازمت کی شرائط متعارف کرائی جائیں گی۔
غیر ملکی ملازمین کے مملکت آنے کے بعد قانونی طور پر آجر اس امر کا پابند ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملازم کے حقوق ادا کرے اور قانون کے مطابق اسے جملہ سہولتیں فراہم کی جائیں۔ 
ورک ویزے کے اہم نکات میں یہ شامل ہے کہ ویزے کے عوض رقم وصول نہیں کی جائے گی۔
اس کا بنیادی مقصد انسانی حقوق کا تحفظ ہے تاکہ آنے والے غیر ملکی یکسو ہو کر مملکت میں کام کریں۔
اس مد میں آجرکی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنے کارکن کا اقامہ اور ورک پرمٹ سالانہ بنیاد پرتجدید کرائے اور ان کی میڈیکل انشورنس قانون کے مطابق کرائے۔ 
اقامہ اور آزاد ویزا

سعودی وزارت افرادی قوت وسماجی بہبود آبادی بیرون ملک سے افرادی قوت درآمد کرنے کے لیے ورک پرمٹ (ویزے) جاری کرتی ہے: فائل فوٹو فری پکس

یہ یاد رکھیں کہ سعودی عرب میں ’آزاد‘ ویزے کا کوئی تصور نہیں اور نہ ہی عملی طور پر ایسا کوئی قانونی نکتہ ہے۔
آزاد ویزے کی اصطلاح ایجنٹس کی پیدا کردہ ہے جس کا خمیازہ یہاں آنے والے تارکین کو بعد میں بھگتنا پڑتا ہے۔ 
حکومت کی جانب سے ویزہ کی فیس مقرر ہے اور وہ اس شخص سے وصول کی جاتی ہے جو اپنے لیے بیرون ملک سے افرادی قوت درآمد کرنے کا خواہاں ہوتا ہے۔ 
سعودی عرب کے اداروں کی جانب سے ویزے کے حوالے سے واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مملکت میں ملازمت کے ویزے پر آنے والے اس امر کے پابند ہیں کہ وہ اپنے آجر کے پاس ہی کام کریں گے۔
دوسری جگہ کام کرنے کے لیے انہیں باقاعدہ اجازت حاصل کرنا پڑتی ہے جسے ’اجیر‘ کہا جاتا ہے۔
نئے قانون محنت میں متوقع تبدیلی 

نئے قانون کے تحت پیشہ ور اور تجربہ کارافرادی قوت کو تمام سہولتیں فراہم کی جائیں گی: فائل فوٹو فری پکس

مملکت میں وزارت افرادی قوت اور دیگر اداروں کے اشتراک سے نیا لائحہ عمل مرتب کیا جا رہا ہے جو آئندہ ماہ سے نافذ کیا جائے گا تاہم مجوزہ قانون محنت میں بنیادی طور پر لفظ ’کفیل‘ کو ختم کر دیا گیا ہے۔ 
اقامہ سسٹم میں ہونے والی تبدیلیوں کے نکات تو ابھی تک واضح نہیں تاہم بنیادی اور اہم نکتہ آجر اور اجیر کے حوالے سے ہی ہے جس کے تحت کارکن کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ اپنے پیشے کے مطابق نئی ملازمت تلاش کر کے وہاں معاہدہ کر سکتا ہے جس کے بعد اسے سپانسر تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ معاہدہ ملازمت ہی اہم دستاویزتصور کی جائے گی۔ 
نئے قانون کے تحت پیشہ ور اور تجربہ کارافرادی قوت کو تمام سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ 

شیئر: