Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا ویکسین سے متعلق عوامی خدشات اور انتظامی مسائل کیا ہیں؟

پاکستان میں اس وقت 60 سال سے زائد عمر کے افراد کو چین کی سائینو فارم ویکسین لگوائی جارہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کورونا ویکسینیشن کا عمل جاری ہے۔ دوسرے مرحلے  میں ہیلتھ کیئر ورکرز کے بعد اب 60 سال سے زائد عمر کے افراد کو بھی حکومت کی جانب سے مفت ویکسین فراہم کی جا رہی ہے۔ 
پاکستان میں کورونا ویکسینیشن کے پہلے مرحلے کا آغاز 3 فروری سے ہوا جب کہ دوسرا مرحلہ 10 مارچ سے جاری ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں اب تک صرف تین لاکھ سے زائد افراد کو کورونا ویکسین کی پہلی خوراک دی گئی ہے اور اس میں زیادہ تعداد ہیلتھ کیئر ورکرز کی ہے۔ 

 

پاکستان میں کورونا ویکسین کے حوالے سے تحفظات کیا ہیں؟ 

پاکستان میں نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ طبی عملے میں بھی کورونا ویکسین سے متعلق خدشات موجود ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت کے زیر انتظام ہسپتالوں میں انتظامیہ نے اپنے عملے پر ویکسینیشن کے لیے خود کو رجسٹر کروانا لازمی قرار دیا ہے۔ 

چینی کمپنی کی تیار کردہ ویکسین پر تحفظات

پاکستان میں اس وقت ہیلتھ کیئر ورکرز اور 60 سال سے زائد عمر کے افراد کو چین کی جانب سے عطیہ کی گئی سائنو فارم ویکسین لگائی جارہی ہے۔ 
اسلام آباد کے ایک سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کورونا ویکسینیشن سے متعلق خدشات کی وجہ مارکیٹ میں پائی جانے والی غلط فہمیاں نہیں بلکہ پاکستان میں دستیاب کورونا ویکسین ہے۔‘
انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’چند ہیلتھ کیئر ورکرز سمجھتے ہیں کہ چینی کمپنی کی تیار کردہ ویکسین کسی حد تک موثر ہے اور اس سے بہتر ویکسین اگر مارکیٹ میں دستیاب ہو جاتی ہے تو ہم دوبارہ ویکیسن نہیں لگوا پائیں گے۔‘
وبائی امراض کے ماہر اور عالمی ادارہ صحت کے سابق رکن ڈاکٹر رانا جواد اصغر کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں چینی کمپنی کی تیار کردہ ویکسین سے متعلق خدشات ضرور پائے جاتے ہیں۔ چونکہ ویکسین کے ٹرائلز کا ڈیٹا واضح طور پر سامنے نہیں ہے جس طرح فائزر اور دیگر ویکسینز کا ڈیٹا موجود ہے لیکن ’متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک میں بھی اس کا استعمال جاری ہے اور تقریباً لاکھوں افراد کو لگ چکی ہے اور کہیں بھی ایسے سائیڈ افیکٹس سامنے نہیں آئے۔‘

اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے دفعہ 144 کے تحت عوامی مقامات پر ماسک پہننا لازمی قرار دیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ڈاکٹر رانا جواد اصغر نے مزید کہا کہ ’میں خود پاکستان میں دستیاب ویکسین لگوا چکا ہوں اور عالمی سطح پر بھی جتنے ماہرین ہیں وہ اس بات پر زور دے رہے ہیں بجائے بہترین ویکسین کا انتظار کرنے کے دستیاب ویکسین فوری طور پر لگوانے کی ضرورت ہے۔‘
 ڈاکٹر جواد اصغر کے مطابق ’فائزر ویکسین اگر 95 فیصد موثر ہے تو سائنو فارم کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ یہ 70 سے 80 فیصد تک موثر پائی گئی ہے۔
’اس کی خواراک سے اگر 50 فیصد بھی کوئی محفوظ ہو جاتا ہے تو غیر محفوظ ہونے سے 50 فیصد محفوظ ہونا تو بہتر ہی ہے۔‘

ویکسینیشن سے متعلق انتظامی مسائل کیا ہیں؟

اسلام آباد کے رہائشی غفران عباسی کے خاندان میں بھی کورونا ویکسین کے حوالے سے مختلف خدشات پائے جاتے تھے لیکن انہوں نے اپنے والدین کو کورونا ویکسین لگوانے کے لیے قائل تو کرلیا لیکن انہیں ویکسینیشن سینٹر میں انتظامی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ 
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’کورونا ویکسین کے حوالے سے ابتدا میں طرح طرح کی باتیں ہوتی رہیں ’جس میں کبھی کوئی ڈی این اے کی تبدیل ہونے کے خدشے کا اظہار کرتا تو کبھی ویکسین کے مختلف سائیڈ افیکٹس کا تذکرہ کرتا نظر آتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں نے اپنے والدین کو قائل کرنے کے لیے ماہرین کا سہارا لیا اور ان کو ویکسین لگوانے کے لیے قائل کرنے میں کامیاب ہوا لیکن خاندان میں کچھ بزرگ اب بھی ایسے ہیں جو ویکسین لگوانے سے کتراتے ہیں۔‘

 ڈاکٹر جواد اصغر کے مطابق ’فائزر ویکسین اگر 95 فیصد موثر ہے تو سائنو فارم 70 سے 80 فیصد موثر بتائی جارہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے اپنے والدین کو ویکسین لگوانے کا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’ویکسین لگوانے کا پیغام موصول ہونے کے بعد پمز ہسپتال میں قائم ویکسینیشن سینٹر گئے تو پہلے تو طویل انتظار کرنا پڑا اور اس کے بعد جب باری آئی تو کہا گیا کہ اپنے معالج سے ویکسین لگوانے کا لکھوا کر لائیں۔ چونکہ میرے والد دل کے عارضے میں مبتلا ہیں تو عملے نے کہا کہ آپ پہلے اپنے معالج سے لکھوا کر لائیں پھر آپ کو ویکسین لگائی جائے گی۔‘
انہوں نے انتظامی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت کی جانب سے دیے گئے نمبر سے جو پیغام موصول ہوتا ہے اگر اس کے ساتھ معالج سے مشورہ کرنے کی ہدایت بھی شامل ہوتی تو مجھے دو دو بار ویکسینیشن سینٹر جانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ یہی نہیں ویکسین سینٹرز میں ایک ہجوم سا لگا ہوا تھا اور سماجی فاصلے کا بالکل خیال نہیں رکھا جا رہا تھا۔ ایک تو ہم بڑی مشکل سے اپنے والدین کو قائل کر کے لاتے ہیں اوپر سے ویکسین سینٹرز میں مسائل دیکھ کر بے بس ہو جاتے ہیں۔‘

حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے؟

وزارت قومی صحت کی پارلیمانی سیکرٹری نوشین حامد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں پنجاب اور بالخصوص لاہور میں ویکسین لگوانے والے شہریوں کی حوصلہ افزا تعداد سامنے آرہی ہے۔‘
پاکستان میں ویکسین لگوانے سے متعلق عوامی خدشات پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت تو ہمارے پاس اتنا رش بڑھ رہا ہے کہ پہلے جو لوگ ویکسین لگوانا چاہتے ہیں ان کو لگوا لیں اس کے بعد ایسے افراد کے حوالے سے اقدامات کریں گے جو ویکسین لگوانے سے کترا رہے ہیں۔‘

نوشین حامد کا کہنا ہے کہ ’لاہور میں ویکسین لگوانے والے شہریوں کی حوصلہ افزا تعداد سامنے آرہی ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’پنجاب میں رجسٹریشن کا طریقہ کار مزید آسان بنانے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اب کوئی بھی 60 سال سے زائد عمر کا فرد کسی بھی ویکسینیشن سینٹر جا کر اپنے شناختی کارڈ پر اسی وقت رجسٹریشن کروا کر ویکسین لگوا سکتا ہے۔ دیگر صوبوں میں بھی جلد یہ سہولت فراہم کر دی جائے گی۔‘ 
ویکسینیشن سینٹرز میں انتظامی مسائل کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’ابتدا میں مختلف ویکسین سینٹرز میں رش بڑھنے کی شکایت سامنے آئی تھیں لیکن اب رش کو کم سے کم رکھنے کے لیے شہریوں کو یہ سہولت فراہم کر دی گئی ہے کہ اگر ان کو دیے گئے نمبر (1166) سے ویکسین لگوانے کا پیغام موصول ہوگیا ہے تو وہ پیغام کسی بھی ویکسین سینٹر پر دکھا کر ویکسین لگوا سکتے ہیں۔‘ 

شیئر: