Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

براڈ شیٹ انکوائری: ’زرداری کے خلاف مقدمہ دوبارہ چلانے کا سوچا جاسکتا ہے‘

رپورٹ کے مطابق 15 لاکھ ڈالر کی رقم ’براڈ شیٹ‘ کو دے کر جو سیٹلمنٹ کی گئی اس کا ریکارڈ غائب کر دیا گیا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کی وفاقی حکومت نے براڈ شیٹ انکوائری رپورٹ کو منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ فیصلہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا۔
اجلاس کے بعد وفاقی وزیر فواد چوہدری نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ براڈ شیٹ انکوائی کی رپورٹ پبلک کی جارہی ہے ’اس میں پانچ افراد کے خلاف فوجداری کاروائی کی سفارش کمیشن نے کی ہے جن میں سابق سفیر عبدالباسط اور احمر بلال صوفی بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اسی کمیشن کی رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جو سوئس بینکوں کا ریکارڈ گم ہو گیا تھا وہ بھی نیب کے ریکارڈ رومز سے مل گیا ہے۔ اب حکومتی قانونی ٹیمیں اس پر کام کر رہی ہیں کیونکہ اس ریکارڈ کے سامنے آنے سے زرداری کے خلاف مقدمہ دوبارہ چلانے کا سوچا جاسکتا ہے۔‘

 

ساٹھ سے زائد صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کے کچھ حصے اردونیوز کو موصول ہوئے ان کے مطابق کمیشن نے دوہزار سے 2003 تک کئی ملکی شخصیات کے اثاثوں کی چھان بین کے جو معاہدے کیے ان میں کئی طرح کی پیچیدگیاں تھیں۔ اور یہ معاہدے نیب کے پہلے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) سید محمد امجد کے دور میں ہوئے۔
مکمل رپورٹ 500 صفحات پر مشتمل ہے جن میں 62 صفحات پر انکوائری جبکہ باقی صفحات رپورٹ سے متعلق مواد پرشامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق ’ پاکستان کے برطانیہ میں سابق ہائی کمشنرعبدالباسط ، سابق حکومتی وکیل احمربلال صوفی ، وزارت قانون کے سابق جوائنٹ سیکرٹری غلام رسول اور نیب کے ڈیسک آفیسر حسن ثاقب کو پندرہ لاکھ ڈالر حکومتی خزانے سے نکلوا کر غلط ہاتھوں میں دینے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ کمیشن نے کل 26 افراد کے بیانات بھی قلم بند کیے ہیں جن میں ان افراد کے نام بھی شامل ہیں جنہوں نے کمیشن کے روبرو یہ مانا ہے کہ ان سے غلطی ہوئی۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس کو ناقابل قبول اور فاش غلطی قرار دیا ہے۔‘
رپورٹ کے ایک حصے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پندرہ لاکھ ڈالر کی رقم دے کر جو سیٹلمنٹ کی گئی اس کے بعد اس سیٹلمنٹ کا ریکارڈ غائب کر دیا گیا۔

فواد چودھری نے کہا کہ ریکارڈ سامنے آنے سے زرداری کے خلاف مقدمہ دوبارہ چلانے کا سوچا جاسکتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’سیکریٹریز جن میں وفاقی سیکرٹری قانون، وفاقی سیکرٹری فنانس اور اٹاری جنرل آف پاکستان کے بیان بھی لف کیے گیے ہیں جنہوں نے یہ بتایا ہے کہ اس سیٹلمنٹ سے متعلق ریکارڈ چوری کیا گیا ہے۔ اسی طرح لندن ہائی کمیشن میں بھی فائل کی ایک کاپی رکھی گئی تھی وہ بھی چوری ہو گئی ہے اور لندن میں پاکستان کے ہائی کمیشن نے ویڈیو بیان میں کمیشن کو اس صورت حال سے آگاہ کیا ہے۔ صرف ایک کاپی نیب کے دفتر میں موجود تھی جس سے ساری صورت حال سامنے آئی۔ کمیشن نے واضع لکھا ہے کہ حکومت اس چوری کے سامنے آنے کےبعد اپنی مرضی سے کاروائی کر سکتی ہے۔‘

براڈ شیٹ کمیشن کا بیک گراونڈ:

پاکستان کی حکومت کو اس وقت سبکی کا سامنا کرنا پڑا جب براڈ شیٹ ایل ایل سی نامی امریکی کمپنی نے لندن ہائی کورٹ میں نیب کے خلاف ہرجانے کا مقدمہ جیت لیا۔ براڈ شیٹ کے معاملے پر لندن ہائی کورٹ کے فیصلے میں یہ بات سامنے آئی کہ براڈ شیٹ کمپنی سمجھ کر نیب نے پندرہ لاکھ ڈالر اسی نام کی ملتی جلتی کمپنی کو ادا کر دیے تھے۔ اور عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ یہ ادائیگی ہو چکی ہے۔ تاہم لندن ہائی کورٹ نے حکومت پاکستان کے وکیل کی یہ بات رد کرتے ہوئے اصل براڈ شیٹ کو سود اور اخراجات سمیت 33 لاکھ ڈالر ادا کرنے کا حکم دے دیا۔
’جعلی‘ براڈ شیٹ کو ادا کیے جانے والے 15 لاکھ ڈالر الگ ہیں۔ نیب نے ایک جعلی کمپنی کو یہ رقم کیوں دی اور یہ 15 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کیسے ہوئی اس حوالے سے حکومت پاکستان نے جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید کو معاملے کی انکوائری کرکے رپورٹ 45 دن میں جمع کروانے کی ہدایت کی تھی۔ 
کمیشن نے اپنی حتمی روپورٹ میں پانچ افراد کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ 

براڈ شیٹ کمیشن نے اپنی حتمی روپورٹ میں پانچ افراد کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

خیال رہے کہ سال 2000 میں سابق فوجی صدر پرویزمشرف کے دور میں نیب نے براڈ شیٹ نامی کمپنی سے شریف فیملی سمیت دیگر سیاستدانوں اور کاروباری افراد کے بیرون ملک اثاثہ جات کی چھان بین کے لیے معاہدہ کیا تھا۔ سال دوہزار تین میں یہ معاہدہ اس وجہ سے ختم کر دیا گیا کہ کمپنی ’مطلوبہ نتائج‘ فراہم نہیں کر سکی۔
جس کے بعد اس کمپنی نے ہرجانے کا دعوی دائر کر دیا تھا۔ سال دوہزار سات میں نیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ عدالت کے باہر سیٹلمنٹ کرنے کا فیصلہ کیا تو اس غرض سے احمربلال صوفی نے لندن جا کر کمپنی کے مالک کیوموسووی سے ملاقت کی اور 15 لاکھ ڈالر دینے کی پیش کش کی۔ جس کے بعد یہی 15 لاکھ ڈالر 2008 میں جیری جیمز نامی شخص کو ادا کر دیے جو ایک اور براڈشیٹ نامی کمپنی کے مالک تھے۔ اور ڈیل برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اندر ہوئی تھی اور عبدالباسط اس وقت پاکستانی ہائی کمشنر تھے۔ بعد ازاں وہ انڈیا میں بھی پاکستان کے ہائی کمشنر رہے۔

شیئر: