دنیا میں بعض ایسے کیلنڈر بھی رائج ہیں جن میں ’ہفتہ‘ پانچ، چھ، آٹھ، نو، دس اور تیرہ دنوں کا ہوتا ہے (فوٹو: فری پک)
اُن کے وعدوں کا حال کیا کہیے
ہفتہ و ماہ و سال کیا کہیے
وعدہ وفا ہونے کا انتظار اور ’ہفتہ و ماہ و سال‘ کا شمار، عشاق کا محبوب مشغلہ ہے مگر ہمیں ان عاشقانہ جذبوں سے نہیں لفظوں سے دلچسپی ہے۔ لہٰذا آگے بڑھتے ہیں اور شعر میں آئے لفظ ’ہفتہ‘ کی بات کرتے ہیں۔
حروف کا اپنے قریب المخرج حروف سے بدل جانا عام بات ہے، یہی وجہ ہے کہ فارسی کا ’ہفت‘، سنسکرت کا ’سپت‘ اور عبرانی کا ’سبت‘ اصلاً ایک ہی لفظ کی مختلف صورتیں ہیں اور تینوں لفظوں کا مطلب ’سات‘ ہے۔
چوں کہ ہفتہ، ہفت روزہ ہوتا ہے اسی لیے ’ہفتہ‘ کہلاتا ہے، پھر یہی’ہفتہ‘ سنسکرت میں ’سپتہ/सप्ताह‘ ہے جب کہ ہفتہ اور سپتہ کی مشترک صورت نیپالی کا ’ہپتہ‘ اور’ایغوری‘ زبان کا ’ھەپتە‘ ہے۔
دنیا میں بعض ایسے کیلنڈر بھی رائج ہیں جن میں ’ہفتہ‘ پانچ، چھ، آٹھ، نو، دس اور تیرہ دنوں کا ہوتا ہے۔ ہفتوں کے اس’جمعہ بازار‘ میں حقیقی ’ہفتہ‘ وہی ہے جو سات دنوں پر مشتمل ہے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں وہ کیسے؟
عرض ہے کہ چاند کے طلوع وغروب کا مشاہدہ اور اس کی منزلوں کا مطالعہ انسان کا مشغلہ رہا ہے۔ یوں انسان نے عہد قدیم ہی میں یہ راز پالیا کہ چاند اپنی پیدائش کے پہلے سات دنوں میں بڑھتے بڑھتے نصف ہوجاتا ہے اور اگلے سات دنوں میں مکمل ہو کر’ماہِ کامل‘ نام پاتا ہے۔
اس عروج کے بعد زوال شروع ہوتا ہے، لہٰذا آئندہ سات دنوں میں یہ گھٹتے گھٹتے آدھا رہ جاتا ہے جب کہ مزید سات دن بعد یہ بالکل معدوم ہو جاتا ہے۔ یوں واضح تبدیلی کی اس ہفت روزہ مدت کو ’ہفتہ‘ کہا جاتا ہے۔
فارسی میں چاند کو ’ماہ‘ کہتے ہیں، جو حرف ’ہ‘ کے ’س‘ سے بدلنے پر سنسکرت میں ’ماس/ मास‘ کی صورت میں جگمگا رہا ہے۔ اب ’ماس‘ کو ذہن میں رکھیں اور ہندی ترکیب ’پورن ماشی‘ پر غور کریں اس میں آپ کو ’پورا چاند‘ نظر آجائے گا۔ اب اس ترکیب کو ’گلزار وفا چودھری‘ کے شعر میں دیکھیں:
شام ڈھلے سے آسیبوں کا ڈنکا باجے
’پورن ماشی‘ میں بھی باہر آنا کیسا
’پورن ماشی‘ چودہوَیں دن کا چاند ہوتا ہے یوں عرفِ عام میں ’چودہوِیں کا چاند‘ کہلاتا ہے، چونکہ ’چودہ دن‘، دو ہفتوں کے برابر ہوتے ہیں، لہٰذا فارسی کی رعایت سے اردو میں اس چاند کو ’مہِ دو ہفتہ‘ بھی کہتے ہیں۔ دیکھیں ثاقب کانپوری کیا کہہ رہے ہیں:
کسی کو عکس کشی میں کمال ہو نہ سکا
’مہِ دو ہفتہ‘ حریفِ جمال ہو نہ سکا
اس ’مہِ دو ہفتہ‘ کو ماہِ کامل اور ماہِ تمام بھی کہا جاتا ہے جب کہ عربی میں یہ ’بدر‘ کہلاتا ہے۔ چونکہ ’بدر‘ میں تکمیل کا مفہوم پوشیدہ ہ یوں جوان لڑکا مجازاً ’بدر‘ کہلاتا ہے۔
قمری ماہ کی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ کو جب کہ چاند خوب روشن ہوتا ہے، اصطلاح میں ’ایام بِیض‘ یعنی ’روشن دن‘ کہتے ہیں، جب کہ بنا چاند کی تاریک راتوں کو ’ایام اسود‘ یعنی ’سیاہ دن‘ کہا جاتا ہے۔ یہ سیاہ راتیں ہندی میں ’اماوس‘ اور فارسی میں ’شبِ دیجور‘ کہلاتی ہیں۔
’شبِ دیجور‘ کی رعایت سے اردو کے دو شاعروں شیخ قلندر بخش جرأت اور انشاء اللہ خان انشاء کے درمیان ہونے والی پُر لطف گفتگو لائق بیان ہے:
نابینا شاعر جرأت ایک روز فکر سخن میں گُم تھے کہ انشاء آگئے۔ انہیں جو گُم سُم پایا تو پوچھا۔ ’حضرت کس سوچ میں ہیں؟‘
جرأت نے کہا ’کچھ نہیں بس ایک مصرع ہوا ہے۔ شعر مکمل کرنے کی فکر میں ہوں۔‘ انشاء نے عرض کی ’کچھ ہمیں بھی پتہ چلے‘
جرأت نے کہا ’نہیں، تم گرہ لگا کر مصرع مجھ سے چھین لوگے‘ آخر بڑے اصرار کے بعد جرأت نے مصرع پڑھا:
’اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی‘
انشاء نے فوراً گرہ لگائی:
’اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی‘
یہ سننا تھا کہ جرأت لاٹھی اٹھا کر انشاء کی طرف لپکے، دیر تک انشاء آگے اور جرأت پیچھے پیچھے انہیں ٹٹولتے پھرتے رہے۔
اب واپس ’دیجور‘ پر آتے ہیں، ’دیجور‘ عربی لفظ ہے، جس کے معنی تاریکی اور تیرگی ہیں۔ ایسے میں اہل فارس نے ’دیجور‘ کے ساتھ ’شب‘ کا لاحقہ لگا کر شب کو تاریک تر کر دیا کہ شاعر طلوعِ سَحر سے مایوس ہوکر پکار اٹھا ’تاریک شب ہے لذتِ خوابِ سَحر گئی‘۔
’سَحر‘ سے یاد آیا کہ عام بول چال میں جہاں ’سَحر‘ کہنا ہو وہاں سین کے زیر کے ساتھ ’سِحر‘ کہہ دیا جاتا ہے جو ظاہر ہے کہ درست نہیں۔ وہ یوں کہ لفظ ’سَحر‘ اور ’سِحر‘ ہم ریشہ ہوتے ہوئے بھی دو مختلف معنی میں برتے جاتے ہیں۔
’سَحر‘ کے معنی صبح کا دُھندَلکا اور ’سِحر‘ کا مطلب ’جادو‘ ہے۔ پھر اسی سِحر سے لفظ ساحر یعنی جادوگر اور ’مسحور‘ یعنی سحر زدہ بھی ہے۔ اس’ساحر و مسحور‘ کو مُنگیر (ہندوستان) کی’رخشاں ہاشمی‘ کے شعر میں ملاحظہ کریں:
اک نظر میں کر دیا مسحور، کیا ساحر تھا وہ
منجمد کر کے مجھے میری روانی لے گیا
یوں تو لفظ ’سَحر‘ اور ’سِحر‘ جداگانہ معنی رکھتے ہیں مگر غور کیا جائے تو ان کے مشترکہ مفہوم تک با آسانی پہنچا جاسکتا ہے۔ عربی میں ’سَحر‘ اس وقت کے لیے بولا جاتا ہے جب صبح کے آثار تو ہوتے ہیں مگر صبح نہیں ہوتی، یوں اس دُھندَلکے میں زیادہ دور تک نہیں دیکھا جاسکتا۔
آسان لفظوں میں کہیں تو بہت سی چیزوں کی حقیقت نگاہوں سے اوجھل ہوتی ہے۔ دوسری طرف سِحر یعنی جادو کے نتیجے میں بھی ساحر (جادوگر) حقیقت کو نظر سے پوشیدہ کردیتا ہے۔ یوں ’سَحر‘ اور ’سِحر‘ کا مشترکہ مفہوم ’نگاہوں سے پوشیدگی‘ قرار پاتا ہے۔ اب سَحر کے رعایت سے ’حبیب ہاشمی‘ کا پُرمعنی شعر ملاحظہ کریں: