Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: اس حمام میں سب ننگے ہیں

عدالت نے کہا ہے میڈیا کوئی ایسی سی ڈی استعمال نہیں کر سکتی جس سے ان لوگوں کی بدنامی ہو سکتی ہو۔ (فوٹو: دی کوونٹ)
یہ ایک خفیہ سی ڈی کی کہانی ہے اور اس کے مرکزی کردار انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک کے ایک وزیر ہیں۔ سی ڈی منظر عام پر آئی اور جب سیاسی پریشر بہت بڑھ گیا تو وزیر موصوف کو مستعفی ہونا پڑا۔ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا۔ انسان سے غلطی ہو ہی جاتی ہے، سیاستدانوں سے دوسرے لوگوں کی نسبت کچھ زیادہ ہوتی ہیں اور ہمیشہ تو نہیں لیکن کبھی کبھی انہیں سزا بھی بھگتنا پڑتی ہے۔
بعد میں وہ چاہے لاکھ کہتے پھریں کہ ہمیں پھنسایا گیا ہے لیکن پھر کون سنتا ہے۔ گاؤں، دیہات میں آپ نے اکثر بزرگوں کو کہتے سنا ہو گا کہ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت۔
چڑیا کے کھیت چگ جانے کے بعد چھ دیگر وزرا نے عدالت سے رجوع کیا۔ انہیں خدشہ تھا کہ اس طرح کی اور سی ڈی بھی موجود ہو سکتی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ان فلموں میں مرکزی کردار خود انہوں نے ادا کیا ہو۔
عدالت نے اپنے عارضی حکم میں کہا کہ ’میڈیا کوئی ایسی سی ڈی استعمال نہیں کرسکتی جس سے ان لوگوں کی بدنامی ہو سکتی ہو۔‘
یہاں تک بھی ٹھیک ہی تھا۔ انڈیا میں غیر ازدواجی تعلقات اب قانوناً جرم نہیں ہیں۔ اگر دو شادی شدہ یا غیر شادی شدہ بالغ اپنی مرضی سے جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں تو یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے اور قانون کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
لیکن بھائی اگر آپ کو واقعی بدنامی کا ڈر ہے تو ذرا احتیاط سے کام لینا سیکھیے۔ ایسی سی ڈی بننے کی نوبت ہی کیوں آئے کہ اس کا براڈکاسٹ رکوانے کے لیے عدالتوں کے چکر لگانے پڑیں۔
کانگریس کے رہنماؤں نے جب مستعفی ہونے والے وزیر کے کردار پر سوال اٹھائے تو ان کے ایک ساتھی سے رہا نہیں گیا۔ یہ صاحب عدالت سے رجوع کرنے والے چھ وزرا میں شامل ہیں۔

کرناٹک کے سابق وزیراعلیٰ سدھارمیا کا کہنا ہے کہ سب ارکین اسمبلی کے گھر والے اب ان پر شک کریں گے۔ (فوٹو: نیشنل ہیرالڈ)

انہوں نے کہا کہ ’تمام حکمران اور حزب اختلاف کے اراکین اسمبلی کی تفتیش کرائی جانی چاہیے۔ اس بات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جانا چاہیے کہ ان میں سے کتنے اپنی بیویوں کے ساتھ وفادار ہیں اور کتنوں کے غیرازدواجی تعلقات ہیں۔اس تفتیش سے عوام کے سامنے پورا سچ آ جائے گا۔
’یہ سابق وزیراعلیٰ، یہ سب لوگ بڑے پاک صاف بنے پھر رہے ہیں۔ جیسے اپنی بیویوں سے بہت محبت کرتے ہوں اور معاشرے کے لیے مشعل راہ ہوں۔ سب کے راز فاش ہو جائیں گے، یہ میں کھلا چیلنج دے رہا ہوں۔‘
اب آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ اسمبلیوں میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ شریف بھی اور غیر شریف بھی، بیویوں سے محبت کرنے والے بھی اور ان کے ساتھ بے وفائی کرنے والے بھی۔ ریاست کے سابق وزیراعلیٰ سدھارمیا نے جواب میں کہا کہ ’سب ارکین اسمبلی کے گھر والے اب ان پر شک کریں گے۔‘
اب کون کس سے محبت کرتا ہے اور کسے دھوکا دیتا ہے، یہ معلوم کرنا کیسے ممکن ہے۔ اس کا کوئی لیب ٹیسٹ تو ہے نہیں کہ سیمپل دیا اور رپورٹ آ گئی اور اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ آپ کس سے محبت کرتے ہیں۔
لیکن اور تو کسی کو معلوم ہو یا نہ ہو، بیویاں سب جانتی ہیں۔ تو کیوں نہ جب الیکشن کے وقت دوسری دستاویزات مانگی جاتی ہیں تو ان کے ساتھ بیویوں کی طرف سے بھی ایک کیریکٹر سرٹفیکیٹ لازمی کر دیا جائے۔ اس میں وہ صاف طور پر بتائیں کہ ان کے شوہر عورتوں کی عزت کرتے ہیں یا دل پھینک ہیں۔ اپنے بیوی بچوں سے واقعی محبت کرتے ہیں یا انہیں لگتا ہے کہ ان کی ذمہ داری گھر کا خرچ دینے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے۔
انڈیا میں انتخابات کے وقت امیدواروں کو اپنے تمام اثاثوں کی تفصیل فراہم کرنا پڑتی ہے اور یہ بھی کہ ان کے خلاف کوئی فوجداری کا مقدمہ تو نہیں چل رہا۔ ایک حلف نامہ اور سہی، اس معمولی سے قدم سے بہت سی عورتوں کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل سکتی ہے۔
یہ کام الیکشن کمیشن کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن کرناٹک میں اس طرح کے واقعات کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔

یدورپا جب کرناٹک کے وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے اسمبلی میں فحش فلمیں دیکھنے والے صاحب کو نائب وزیر اعلیٰ مقرر کیا۔ (فوٹو: دی انڈین ایکسپریس)

سنہ 2002 فروری میں ایک وزیر اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپنے فون پر فحش فلمیں دیکھتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ ان کے دو ساتھی بھی انہی کے فون پر یہ فحش مواد دیکھ رہے تھے۔
بعد میں انہوں نے طرح طرح کے عذر پیش کیے جس میں یہ ہوش ربا جواز بھی شامل تھا کہ ’وہ اسمبلی میں ایسی عریاں پارٹیوں پر بحث کی تیاری کر رہے تھے جن میں منشیات اور شراب کا آزادانہ استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے بعد وہ سب ہوتا ہے جو وزیر موصوف فون پر دیکھ رہے تھے۔‘
جب ہنگامہ زیادہ ہوا تو دو وزرا کو مستعفی ہونا پڑا۔ شاید ان کی پارٹی کے رہنماؤں کو ان کا بحث کے لیے تیاری کرنے کا یہ انداز زیادہ پسند نہیں آیا۔
لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ دو سال پہلے یدورپا جب ریاست کے وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے اسمبلی میں فحش فلمیں دیکھنے والے صاحب کو نائب وزیر اعلیٰ مقرر کیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ خفیہ سی ڈی کیس میں استعفا دینے والے وزیر کو ترقی ملنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔

شیئر:

متعلقہ خبریں