Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی فوجوں کا انخلا: ’آپ افغانستان کیوں آئے، اب کس لیے واپس جا رہے ہیں؟‘

اِیلئی ارشاد کا کہنا ہے کہ کیا امریکیوں نے جرمنی میں ہونے والی پہلی بون کانفرس کے نکات پر عمل کیا؟ (فوٹو: اے ایف پی)
امریکی صدر جو بائیڈن نے جب بدھ کو اعلان کیا کہ افغانستان سے فوجوں کی واپسی کا وقت آ گیا ہے تو اِیلئی ارشاد جیسی کئی خواتین کو اس خدشے نے پھر سے آ گھیرا کہ اس کے بعد ملک میں امن و امان کی صورت کیا رخ اختیار کرے گی۔
کابل سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے افغان ولسی جرگے (ایوان نمائندگان) کی سابق رکن اِیلئی ارشاد نے سوال اٹھایا کہ امریکی افغانستان سے کس لیے واپس جا رہے ہیں؟ کیا انہوں نے جرمنی میں ہونے والی پہلی بون کانفرس کے نکات پر عمل کیا؟
ان کے ایجنڈے پر تین نکات تھے۔ ایک افغانستان کی دوبارہ آباد کاری، دوسرا افغانستان میں امن کا قیام اور تیسرا خواتین کو حقوق دینا۔
بقول ان کے یہ سوال امریکیوں سے ہونا چاہیے کہ ’آپ نے اس ایجنڈے پر عمل کیا؟ ان میں کس کو آپ نے نافذ کیا اور کس حد تک اس ضمن میں راہ ہموار کرنے کی کوشش کی؟‘
وہ یہ بھی پوچھتی ہیں کہ ’آپ یہاں کیوں آئے تھے، اب کس لیے واپس جا رہے ہیں؟‘
امریکی صدر جو بائیڈن نے 11 ستمبر کو افغانستان سے فوجیوں کے انخلا کا اعلان کیا اور کہا کہ کوئی فوجی 11 ستمبر کے بعد افغانستان میں نہیں رکے گا۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فروری 2020 میں افغان طالبان کے ساتھ ایک امن معاہدے کے تحت افواج کے انخلا کے لیے یکم مئی 2021 کی تاریخ دی تھی۔ طالبان نے صدر جو بائیڈن کے اعلان کے بعد امن عمل سے متعلق تمام کانفرنسوں میں میں شرکت سے انکار کیا ہے۔
فوجیوں کے انخلا کے حوالے سے افغانوں کا کہنا ہے کہ ان کو ایسی صورتحال میں اکیلا نہ چھوڑا جائے جس کی وجہ سے ان کا مستقبل داؤ پر لگ جائے۔

صحافی شبنم خان کی کئی خواتین کولیگز حالیہ ٹارگٹ کنلگ کا نشانہ بنی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اِیلئی ارشاد کا کہنا ہے کہ ’افغان ماؤں کی پہلی، دوسری اور تیسری ترجیح ہی امن ہے۔‘
وہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا پر متفق ہیں تاہم وہ یہ کہتی ہیں کہ دونوں فریقین کو معاہدہ کرنا ہوگا اور طالبان کو سیز فائر کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر امریکہ اس صورت حال میں افغانستان سے نکلتا ہے تو یہ ایک بڑی شکست ہوگی۔ ‘
’آپ مجھے قتل بھی کرتے ہو اور چاہتے ہو کہ صلح بھی کر لیں۔ کیا یہ آپ کا ہدف تھا؟‘
افغان قومی ٹیلی ویژن کی پریزینٹر شبنم خان دوران کی کئی خواتین کولیگس حالیہ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنی ہیں۔ صبح دفتر کے لیے نکلتے ہی نہ صرف ان کے والدین ان کے لیے پریشان ہوتے ہیں بلکہ کچھ ہو جانے کا ڈر بھی شبنم کو لگا رہتا ہے۔
ان کو خدشہ ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کے جانے سے خانہ جنگی کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

افغان طالبان نے امریکی صدر کے اعلان کے بعد امن عمل سے متعلق کسی بھی کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بقول ان کے ’امریکہ تب تک افغانستان سے نہ نکلے جب تک امن عمل کے لیے مذاکرات کسی مثبت نتیجے تک نہیں پہنچتے اور طالبان موقف میں نرمی نہیں لاتے۔‘
کابل کے رہائشی فاروق جان مینگل کہتے ہیں کہ گذشتہ دو دہائیوں میں جو چیزیں حاصل کیں، امریکا جانے سے قبل ان کے پھر سے نہ چھن جانے کی ضمانت دے۔
وہ کہتے ہیں موجودہ حالات میں افغانستان کو نہ چھوڑا جائے۔ ’امریکا کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ افغان عوام، حکومت اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون جاری رکھے۔‘
جبکہ شبنم خان دوران کے مطابق ’میں جنگ کے دنوں میں ہی پیدا ہوئی، اس کے دوران ہی پلی بڑھی اور اب جوانی بھی اسی جنگ میں گزر رہی ہے۔
وہ اپنی حسرتوں کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’کاش وہ بھی دوسرے ممالک کے لوگوں کی طرح دھماکوں اور فائرنگ کی آوازوں سے نہیں بلکہ الارم سے جاگیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مذاکرات کے مثبت نتائج سامنے آنے سے حالات بہتر ہوں گے، ہر انسان کا حق ہے کہ وہ کھلی فضا میں سانس لے۔

شیئر: